ابراہیم خان
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ میڈیا سے کھلنے لگے ہیں۔ محکموں سے بریفنگز لینے کے بعد اب وہ اس قابل ہوچکے ہیں کہ اپنے افکار عوام تک پہنچا سکیں۔ فوری انتخابات کے انعقاد کا تو ابھی تک ان کی طرف سے کوئی ارادہ دکھائی نہیں دے رہا۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں ان کے خیالات توقعات کے عین مطابق وہی ہیں جو سابق وزیراعظم شہباز شریف یا مسلم لیگ کے عہدیداروں کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات ملک کو خانہ جنگی اور بغاوت کی جانب لے جانے کی کوشش تھی جس کا ہدف آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔ وزیر اعظم کے اس موقف کے بعد یہ بات واضح ہے کہ اتحادی حکومت کی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف جو پالیسی جاری تھی اس میں رتی برابر فرق نہیں آیا بلکہ بعض معاملات میں تو زیادہ شدت دیکھی جا رہی ہے۔ 9 مئی کے واقعات کو اب چار مہینے مکمل ہونے کو ہیں۔ نو مئی کے واقعات سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اتنے قلیل عرصے میں اس انجام کو پہنچ جائے گی کہ اس کی بقاء کے سامنے ایک سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کو جس تیزی کے ساتھ منظر عام سے ہٹایا گیا اس کی نظیر پاکستان میں بہت کم دیکھی گئی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جس طرح کی مزاحمت دیکھی گئی وہ بھی اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں دیکھی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت ختم ہوئی تو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اس نے خود بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتدار کو لات مار دی۔ اس کے بعد اسے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان وغیرہ کی حکومتوں سے بھی بے دخل کر دیا گیا۔ یوں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ملک میں جتنے بھی اقتدار کے سنگھاسن موجود تھے انہیں اس سے محروم کر دیا گیا۔
ستمبر کی بھی 9 تاریخ قریب تر ہو رہی ہے۔ شائد یہ 9 تاریخ پاکستان تحریک انصاف کیلئے اچھی ثابت نہیں ہورہی۔ 9 ستمبر اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ دن کوچہ اقتدار میں پاکستان تحریک انصاف کی آخری نشانی صدر عارف علوی کی مدت صدارت کا بظاہر آخری دن ہے۔ آئینی اعتبار سے تو صدر کا عہدہ جو پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ ہے، اس کی مدت 9 ستمبر کو پوری ہو رہی ہے۔ ملک میں اگر قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیاں موجود ہوتیں تو اس تاریخ تک نئے صدر مملکت کا انتخاب عمل میں آ جاتا لیکن چونکہ صدر کے انتخاب کا الیکٹورل کالج سینیٹ کے علاوہ سرے سے موجود ہی نہیں، اس لئے آئین کے تحت صدر عارف علوی اس وقت تک اس عہدے پر براجمان رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب عمل میں نہیں لایا جاتا۔ صدر کا انتخاب موجودہ وقت میں اسی لئے ناممکن ہے کہ الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہے۔ ان حالات میں آئین بہت واضح ہے کہ جو موجودہ صدر ہے اسے اس عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔
دوسری طرف اگر حکومت کی ترجیحات دیکھی جائیں تو وہ بھی بہت واضح ہیں۔ صدر کے عہدے کو جس طرح کا قانونی استثنٰی حاصل ہے اس کی وجہ سے حکومت خواہش کے باوجود صدر عارف علوی کو ان کے عہدے سے نہ تو ہٹا سکی اور نہ ہی ان کی کسی حوالے سے گرفتاری کی جا سکی۔حالانکہ صدر مملکت عارف علوی نے بعض مواقعوں پر اپنی جماعت تحریک انصاف کی لائن بھی اختیار کی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے اپ کو کسی حد تک متنازعہ بھی کیا، لیکن اس کے باوجود قانونی استثنٰی کی وجہ سے صدر مملکت کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔ صدر مملکت نے اتحادی حکومت کے قیام کے بعد جس طرح شہباز حکومت کو حلف دینے میں ٹال مٹول کیا، اس کی وجہ سے وہ شہباز حکومت کی آنکھوں میں روز اول سے کھٹک رہے تھے۔ ان کا یہ طرز عمل کسی بھی طور جائز نہیں تھا۔ ملک میں ایک آئینی طریقہ کار سے حکومت تبدیل ہوئی تھی تو انہیں بھی اپنے جمہوری روئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی کابینہ سے حلف لے لینا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے خواہ مخواہ کی محاذارائی مول لی، جس کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کی یہ پالیسی اس لئے بھی غلط تھی کہ بعد ازاں کابینہ میں جو لوگ نئے وزراء شامل ہوتے تھے تو عارف علوی ان سے ان کے عہدوں کے حلف لیتے رہے۔ اس اعتبار سے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ پہلے ہی غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا اور ان کی ایک طرح کی غیر جانبداری کا تاثر بھی جاتا لیکن ان دو مواقعوں کی وجہ سے صدر کا مخالفانہ تصور سامنے آیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ صدر عارف علوی نے اس سے پہلے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی ایک رولنگ بعد ازاں وزیراعظم کی ایڈوائس پر جس طرح فوری طور پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا اس سے بھی ان کے کردار پر ان کی پاکستان تحریک انصاف کی غیر ضروری حمایت کا ٹھپہ لگا تھا۔
ملک کی مروجہ سیاست میں اخلاقیات کا جس انداز سے جنازہ نکالا جاچکا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اس طرز عمل کو بہت سے سیاستدان حق بجانب بھی قرار دینے لگے ہیں۔ بہرحال مذکورہ دونوں امور کے علاوہ صدر عارف علوی نے اپنا برتاؤ ایسا رکھا کہ انہوں نے کوشش کی کہ اپنی جماعت کو بھی راضی رکھیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے خفا نہ ہو۔
ان کی یہ صورتحال اس وقت متاثر ہوئی جب حال ہی میں انہوں نے دو بلوں کے بارے میں یہ کہا کہ انہوں نے ان پر دستخط نہیں کئے۔ عارف علوی نے یہ انکشاف اس وقت کیا جب حکومت نے دونوں بلوں کو باقاعدہ قانون بنانے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ عارف علوی کے اس انکشاف کے بعد ہی سیاسی پنڈتوں نے یہ رائے دے دی تھی کہ صدر مملکت کے بظاہر قصر صدارت میں دن گنے جا چکے ہیں۔ آئین کے تحت صدر کو اب بھی نکالنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس وقت اگر کوئی باضابطہ راستہ موجود ہے تو وہ یہ کہ یا تو صدر کے منصب پر فائز شخص کو محبوط الحواس قرار دے دیا جائے یا پھر خدا نخواستہ اس کی موت واقع ہوجائے۔ پاکستان کے صدر کے منصب پر بھی اسی قسم کے حالات ہیں آئینی طور پر اب جب عام انتخابات ہوں گے اور اس کے بعد اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں گی، تب جا کر نئے صدر کا انتخاب ممکن ہوگا۔ یہ انتخاب بھی اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ مارچ سے پہلے اسمبلیاں معرض وجود میں آجائیں۔ مارچ 2024ء میں نصف سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے۔ جس کے بعد سینیٹ بھی ادھورا ہو جائےگا۔ اس صورتحال میں اگر اسمبلیاں موجود بھی ہوں تب بھی پہلے سینیٹ کا الیکشن ہوگا تاکہ سینٹ کے اراکین کی تعداد پوری ہو جائے۔ اس کے بعد صدارتی انتخابات ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئین کے تحت سر دست صدر کو ہٹانے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اس کے باوجود حالیہ دنوں میں صدر مملکت سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مبینہ ملاقات کے چرچے ہو رہے ہیں۔ اس ملاقات کی ابھی تک کسی نے تصدیق نہیں کی ، البتہ خبروں میں یہ سن گن ضرور جاری ہے کہ جس طرح کسی منصب کی مدت پوری ہوتی ہے، تو اس عہدے دار سے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ یہ مبینہ ملاقات بھی اسی نوعیت کی ہو۔یہ مہمہ تو فریقین ہی حل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں 9 مئی کے بعد کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو سابق وزیراعلی پنجاب پرویز الہی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ صدر مملکت اپنی ٹرم کی تکمیل کے بعد صدارتی عہدے پر برقرار رہ پائیں۔ صدر مملکت اگر استعفیٰ دیتے ہیں تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔ پاکستان کی صدارتی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو صدر مملکت کو ماضی میں کئی بار بڑی آسانی سے ان کے منصب سے ہٹایا جاتا رہا ہے۔ اس کی آخری مزید مثال منتخب صدر رفیق تارڑ تھے۔ جن کو راتوں رات صدر کے عہدے سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ ان کی جگہ پرویز مشرف نے اپنے فوجی یونیفارم کے اوپر صدارتی شیروانی چڑھالی تھی۔ اس اعتبار سے اگلے چار روز بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر صدر عارف علوی 9 ستمبر کو استعفیٰ دیتے ہیں تو اس سے یہ بات ظاہر ہو گا کہ پاکستان میں جمہوریت کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس لئے کہ آئین کے تحت صدر کو ہٹانے کا کوئی راستہ نہیں جبکہ عارف علوی خود سے صدارتی عہدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ آئین کے تحت نئے صدر کے انتخاب تک اپنے عہدے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ قصر صدارت کی یہ صورتحال بہت دلچسپ ہے جس کا آئندہ چند روز میں ڈراپ سین ہوجائے گا۔ اس بارے میں بعض سیاسی حلقے یہ رائے دے رہے ہیں کہ اگر صدر 9 ستمبر کے بعد بھی صدر کے عہدے پر برقرار رہتے ہیں تو ایسی ممکنہ صورت میں وہ انتخابات کی تاریخ نہیں دیں گے بلکہ انہیں مزید کمپرومائزز سے بھی گزرنا پڑے گا۔ اس لئے اب صدر کو انتخاب کرنا ہے کہ انہوں نے قصر صدارت سے نکل کر کسی نہ کسی مقدمے میں جیل یاترا کرنی ہے یا پھر مصلحت کے ساتھ اس آئینی عہدے پر برقرار رہنا ہے۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں