مہنگائی کا سیلاب
حمیرا علیم
گھر میں جب بھی کوئی نقصان ہو، کوئی چیز ٹوٹ جائے یا گم ہو جائے تو میرے چودہ اور نو سالہ بیٹے صاف ستھرا مکر جاتے ہیں کہ انہوں نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔ گھر میں ہم چار ہی افراد ہیں ان کے والد میں اور وہ دو۔ میں اور خرم تو ایسے کام کر نہیں سکتے باقی بچے وہ دونوں تو ایک مجرم اور ایک معصوم ہوتا ہے جب کہ بقول ان دونوں کے دونوں ہی معصوم ہوتے ہیں۔ بحثیت ان کی ماں کے مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سا کام کس نے کیا ہو گا اور جب اس بچے سے پوچھا جاتا ہے تو وہ دوسرے پر الزام دھر دیتا ہے۔ یہ صرف میرے بیٹوں کی ہی عادت نہیں بلکہ پوری دنیا کے بچے ایسا کرتے ہیں۔
چلیں بچوں کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی فطرت میں کچھ چیزیں پائی جاتی ہیں جیسے ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا ایک دوسرے پر الزام دھرنا، والدین کی ڈانٹ کے ڈر سے کسی کام سے مکر جانا وغیرہ۔ لیکن کچھ ایسا ہی رویہ اپنے سیاستدانوں میں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ جسمانی طور پر تو بڑھ گئے لیکن ان کے دماغ ابھی بھی بچکانہ ہی ہیں؟ کوئی بھی جمہوری حکومت خواہ اپنی مدت پوری کرے یا نہ کرے اپنے دور حکومت میں تو کوئی کارکردگی نہیں دکھاتے۔ سوائے ممبران اسمبلی کے حق میں قوانین بنانے اور ترامیم کرنے کے اور جب کوئی ان سے سوال کرے کہ انہوں نے مہنگائی کیوں کی، قرض کیوں لیا، ٹیکسز میں بے جا اضافہ کیوں کیا؟ تو جھٹ جواب دیتے ہیں:”ہم نے تو کچھ نہیں کیا یہ تو سب پچھلی حکومت کے کام ہیں۔ نہ وہ یہ معاہدے کرتی، قرض لیتی، قیمت بڑھاتی نہ ہمیں یہ سب کرنا پڑتا۔”
پٹرول، چینی، آٹے، بجلی اور دیگر اشیاء صرف ایک سال کے اندر تین گنا قیمتی ہو چکی ہیں۔ پہلے جن اشیاء کی قیمتیں صرف بجٹ میں سالانہ بڑھتی تھیں اب روزانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہیں۔ روئے زمین پر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں صارف کے پراڈکٹ کے زیادہ استعمال پر اس پر زیادہ قیمت اور ٹیکسز لاگو ہوتے ہیں۔ ورنہ دنیا بھر میں ایسے صارف کو رعایت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں جب کوئی چیز وافر مقدار میں امپورٹ کی جاتی ہے تو قیمت میں استحکام آتا ہے جب کہ ہمارے ہاں قیمتیں کچھ یوں غیر مستحکم ہوتی ہیں کہ حکومت نے مرغی کی قیمت 450 فی کلو مقرر کی۔ پولٹری فارم والوں نے 500 کی دی دکانداروں نے 600 سے 700 تک کی بیچی کیونکہ ہر شخص دوسرے پر الزام دھر دیتا ہے۔سبزی والے سے پوچھیں:” بھائی یہ ٹماٹر آلو اتنے مہنگے کیوں دے رہے ہیں؟” جواب ملتا ہے:” باجی آڑھتی منڈی میں مہنگے بیچتا ہے۔” آڑھتی کہتا ہے اسے مہنگے ملتے ہیں اب وہ اپنا نقصان کر کے تو آگے نہیں بیچے گا نا۔”یہی سائیکل ہر محکمے اور جگہ پر چل رہا ہے۔
میں ہمیشہ اپنے بیٹوں کو سمجھاتی ہوں کہ اپنی غلطی مان کر اسے سدھاریں اور دوبارہ اسے کرنے سے بچیں کیونکہ جب کوئی شخص اس بات کا احساس ہی نہیں کرتا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہے تو وہ نہ اس کی معافی مانگتا ہے نہ اس گناہ کو چھوڑتا ہے اور ہمیں اپنے اعمال کی ذمہ داری لینی چاہیے کوئی دوسرا نہ اس کا ذمہ دار ہے نہ جواب دہ۔ یہی مشورہ میرا اپنے سیاستدانوں کو بھی ہے جو اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومتی فیصلوں پر بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے ہیں اور یہ بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں کہ اب جب وہ حکومت میں آئیں گے تو ملک کو امریکہ، چین یا دوبئی بنا دیں گے لیکن جب وہ برسراقتدار آ جاتے ہیں، ہماری بے وقوفیوں کی وجہ سے ایک بار نہیں بار بار، تو وہی گھسے پٹے جملے اور الزامات پچھلی حکومت اور حکمرانوں پر لگا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
کیا ملک کی باگ دوڑ چلانے والے لوگوں کا یہ رویہ ٹھیک ہے؟ اگر بچوں کا ایسا رویہ قابل برداشت نہیں جو ابھی کسی عہدے یا ذمہ داری کے قابل نہیں تو ملک چلانے والوں کا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ ذہنی طور پر بھی میچور ہو جائیں۔ اپنے فرائض کا سمجھیں انہیں پورا کریں کوئی کمی کوتاہی ہو جائے تو اس کا اعتراف کریں، اس پر معافی مانگیں اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش کریں اور اس کا اعادہ نہ کرنے کا ارادہ کریں۔ تبھی کوئی حقیقی اور مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ بصورت دیگر ملک دیوالیہ ہونے اور تباہی کے دہانے پر تو پہنچ ہی چکا ہے کہیں روس اور لیبیا والی حالت نہ ہو جائے جہاں بوری بھر روبل سے ایک ڈبل روٹی بھی نہیں مل رہی تھی۔اگر خدانخواستہ ایسا ہو بھی جائے تو سیاستدانوں کو کیا فرق پڑے گا وہ تو اپنے وطن انگلینڈ، امریکہ، دوبئی وغیرہ سدھار جائیں گے مشکل میں تو پاکستانی عوام مبتلا ہو گی۔
میرے پاس ایسا کوئی حل نہیں جو ہمیں ان سیاستدانوں کے عذاب اور مہنگائی کے سیلاب سے بچا سکے۔ چنانچہ میں پکی مسلمان بن کر ، جو ہر حربہ آزما کر ناکامی کی صورت میں آخر میں اللہ سے رجوع کر لیتا ہے، ہر نماز میں سجود میں دعا کرتی ہوں یا اللہ! ہم پاکستانیوں کو مہنگائی، کرپشن، ہر کرپٹ انسان اور ہر طرح کے حرام سے نجات دلا۔آپ سے بھی یہی درخواست ہے شاید کسی کی دعا قبول ہو جائے اور عوام بھی سکھ کا کوئی سانس لے سکے۔