تعلیمکالم

نگران حکومت کے بعد یونیورسٹیاں بھی نگران وائس چانسلرز کے تحت چلیں گی؟

عبداللہ یوسفزئی

ابھی خیبر پختونخوا کی بارہ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعناتی کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ دس مزید یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی پوزیشنز کے لئے اشتہار مشتہر کردیا گیا جس میں مزید یونیورسٹیوں کے لئے وائس چانسلرز درکا ر ہیں جو کہ موجودہ حکومت کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے کہ مجموعی طور پر بائیس یونیورسٹیوں میں کام ٹھپ ہوجائے گا اور یونیورسٹیاں حکومت کی طرح نگران وائس چانسلرز کے رحم وکرم پر رہ جائیں گی جہاں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے نوٹیفیکشنز کی دھجیاں بکھیری جائیں گی، کیونکہ اب موجودہ نگران سیٹ اپ میں صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن کا محکمہ کسی کو بھی نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے نگران وزیر اعلیٰ تعلیم جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر تھیں جس کو اب چارج نہیں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ بارہ یونیورسٹیاں اسی طرح نگران سیٹ اپ کے طور چلتی رہیں گی اور یونیورسٹیوں کا بیڑہ غرق ہوتا رہے گا کیونکہ حکومتی زعما کے یہ ترجیحات ہی نہیں رہی ہے کہ وہ اس بارے میں سوچیں یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی تمام یونیورسٹیوں میں مسائل ہیں۔ پشاور یونیورسٹی نے اس مہینے پھر سے ہائیر ایجوکیشن اور گورنر کو خط لکھا ہے کہ انہیں گرانٹ دیں ورنہ وہ اگست کے مہینے کی تنخواہ اساتذہ اور ملازمین کو نہیں دے پائیں گے اسی طرح بہت سی یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسانی اور میرٹ کے خلاف بھرتیوں پر جی آئی ٹی جاری ہیں جس کا کوئی پتہ نہیں چل رہا ہے۔

اگر حکومت دلچسپی لیتی تو خیبر پختونخوا کی 12 پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری اب تک کی جاچکی ہوتی مگر بارہ جولائی کو ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے آخری بار انٹرویو کے ملتوی ہونے کے نوٹیفیکشن کو بھی ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کو یونیورسٹیوں کے مسائل کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ ان بارہ یونیورسٹیوں کے ساتھ جنوری 2024 میں مزید دس یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی مدت ملازمت ختم ہوجائے گی جس کے لئے آج اخبار میں اشتہار بھی چھپ چکا ہے جس کے ساتھ مجموعی طور پر بائیس یونیورسٹیاں وائس چانسلرز کے بغیر چلیں گی کیونکہ کئیر ٹیکر وائس چانسلرز، پرو وائس چانسلرز قانون کی رو سے صرف یونیورسٹیوں کے روزمرہ کے امور ہی نبھانے کے ذمہ دار ہیں وہ پالیسی میٹر پر کوئی کام نہیں کرسکتے نہ ہی وہ کوئی بھرتی کرسکتے ہیں اور جن یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے آخری چھ مہینے رہ جاتے ہیں اور اشتہار شائع ہوجاتا ہے ان کی حیثیت بھی کئیر ٹیکر وائس چانسلر جیسی ہو جاتی ہے۔ اب صوبہ بھر کے بائیس کے قریب یونیورسٹیوں میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوگا اور یونیورسٹیاں بغیر ریگولر وائس چانسلر کے کام کریں گی جو موجودہ حکومت کے لئے ایک امتحان ہے۔

پہلے سے مشتہر شدہ وائس چانسلر کی تقرری کے لئے آخری بار نگران وزیر اعلیٰ تعلیم جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر کی ہدایت پر انٹرویوز کینسل کرنے کا نوٹیفیکیشن بارہ جولائی کو کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ وزیر برائے اعلیٰ تعلیم، آرکائیوز اور لائبریریز کی ہدایت پر، 12 پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے 19 اور 20 جولائی 2023 کو ہونے والے انٹرویوز ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ تیسری دفعہ التوا سے علمی و سیاسی حلقوں میں یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نئی منتخب حکومت کے آنے تک وائس چانسلر کی تقرری کا عمل مکمل نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ یونیورسٹیاں مزید کئی ماہ تک عبوری سیٹ اپ کے تحت رہیں گی تاکہ ان کی مالی، تعلیمی اور انتظامی صورتحال مزید خراب ہو جائے۔ اس حوالے سے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ اس بار انٹرویوز ملتوی کرنے کا فیصلہ متعلقہ وزیر کی زبانی سفارشات کی روشنی میں کیا گیا، جو خود ہائی کورٹ کے جج رہ چکی ہیں اور انہوں نے عدالتی احکامات کی روشنی میں یہ ہدایات دیں جنہوں نے اس عمل کو مشروط طور پر جاری رکھا تھا۔ ان کے مطابق وزیر کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کی غلط تشریح کی گئی ہے اور اس نے انٹرویوز کی اجازت نہیں دی۔ انٹرویوز ملتوی ہونے یا کرانے میں اور بھی بہت سے وجوہات ہیں جنہوں نے انٹرویوز ملتوی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یونیورسٹیوں کے قائم مقام وائس چانسلرز کی جانب سے سیاستدانوں اور صوبائی اور وفاقی بیوروکریسی میں بااثر شخصیات کے ذریعے مبینہ طور پر ڈالا جانے والا دباؤ تھا جس کی وجہ سے انٹرویوز ملتوی ہوئے۔

متعلقہ یونیورسٹیوں بشمول گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، یونیورسٹی آف ایگریکلچر ڈیرہ اسماعیل خان، وومن یونیورسٹی صوابی، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز سوات، یونیورسٹی آف ایگریکلچر سوات، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز سوات، ایبٹ آباد یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف شانگلہ، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک، یونیورسٹی آف لکی مروت، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، مردان، اور ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ نگراں سیٹ اپ کے تحت کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر یونیورسٹیوں کے پاس پرو وائس چانسلر بھی نہیں ہیں اور ان کا اضافی چارج ان کی قریبی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو دیا گیا ہے۔ جنہوں نے اپنی من مانیاں شروع کی ہوئی ہیں اور یونیورسٹی کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری شدہ نوٹیفیکشن میں سارے وائس چانسلر کو واضح احکامات دیئے گئے ہیں مگر وہ ان احکامات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنی حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ انہیں نوٹیفیکیشن میں کئیر ٹیکر وائس چانسلر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مطلب صرف روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والے کاموں کو دیکھنا اور ملازمین کی تنخواہیں مہیا کرنا ہیں وہ کوئی بھی پالیسی میٹر پر کام نہیں کر سکتے نہ ہی کراسکتے ہیں جبکہ یہ کئیر ٹیکر(نگران ) وائس چانسلر اپنی من مانیوں میں مصروف عمل ہیں جس میں سے بڑا مسئلہ ان نگران وائس چانسلرز کے غیر ضروری اختیارات ہیں۔

مستقل تقرری کی غیر موجودگی میں وہ اکثر فیصلے کرنے اور ایسی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے اپنی عبوری پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو ضروری نہیں کہ یونیورسٹی کے طویل مدتی اہداف اور اقدار کے مطابق ہوں۔ اس سے تعلیمی ادارے کی ہموار کارکردگی اور مجموعی ترقی میں خلل پڑ تا ہے سب سے بڑا معاملہ نگران وائس چانسلرز کے اضافی مراعات اور معاوضے کا ہے۔ اکثر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر پہلے دن کی تعیناتی سے ہی یونیورسٹی کی گاڑیاں ساتھ لے گئے ہیں جس میں انہیں ان لمیٹیڈ پٹرول مہیا کیا جاتا ہے جو کہ ماہانہ لاکھوں میں بنتا ہے اگرچہ ان کے کردار کا مقصد عارضی ہونا ہے، لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ ان عہدوں پر کچھ افراد اپنے آپ کو اضافی فوائد اور مالی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو یونیورسٹیوں کے پہلے سے تنگ وسائل پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اداروں کا مالی استحکام متاثر ہوتا ہے بلکہ عدم مساوات اور جانبداری کا ماحول بھی پیدا ہوتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں جامعات میں نگراں وائس چانسلرز کی تقرری اور ان کے طرز عمل کا معاملہ ہمیشہ تشویشناک رہا ہے جنہوں نے یونیورسٹیوں کو فائدہ دینے کے صرف نقصان ہی پہنچایا ہے۔ ہر وائس چانسلر اپنی مرضی کے افراد کو بھرتی کرلیتا ہے جس سے یونیورسٹیوں پر اضافی بوجھ بڑھ جاتا ہے جو نئے وائس چانسلر کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں اس وجہ سے صوبے کی بڑی یونیورسٹیوں کا برا حال ہے جن کے پاس ملازمین کو دینے کی تنخواہیں نہیں ہوتیں۔

اس وقت بہت سی یونیورسٹیوں میں پرو وائس چانسلرز کے دفاتر بھی غیر منصفانہ طریقوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ یہ پرو وائس چانسلر ایک سال سے زائد عرصے سے قائم مقام وائس چانسلر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہ قائم مقام وائس چانسلر اپنی مدت ملازمت میں زیادہ سے زیادہ توسیع کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے کچھ قائم مقام وائس چانسلرز وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں انٹرویوز تاخیر سے کرانے کے لیے اپنا تمام تر اثرورسوخ استعمال کرنے میں مصروف رہے۔ صوبے میں نگراں حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی انٹرویوز ملتوی کرنے کی ایک اور وجہ ہے۔ نگران حکومت کی بڑی جماعتیں اس عمل میں اپنے مفادات کو پورا کرنا چاہتی تھیں۔

وہ پہلے ہی وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے موجودہ اکیڈمک اور سرچ کمیٹی کو تحلیل کر کے نئے سرے سے تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمان کی سربراہی میں موجودہ کمیٹی کے پاس ابھی بھی تقریباً آٹھ ماہ باقی ہیں کیونکہ ان کی مدت کار آئندہ فروری میں ختم ہو رہی ہے اور انٹرویو  ملتوی کرنے میں ڈاکٹر عطاالرحمن کو بھی وٹس اپ پیغام کے ذریعے آگاہ کیا جاتا ہے جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔ نگراں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا خیال ہے کہ موجودہ کمیٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بنائی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کمیٹی ان اہم عہدوں پر پی ٹی آئی کے حمایتی امیدواروں کو تعینات کرے گی۔

ان خدشات کو دور کرنے کے لیے خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے ایک شفاف اور موثر عمل کا قیام بہت ضروری ہے۔ مستقل وائس چانسلرز کا بروقت انتخاب اور تقرری اداروں کے استحکام، تسلسل اور واضح وژن کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ مزید برآں، نگراں وائس چانسلرز کو غیر ضروری اختیارات استعمال کرنے اور ضرورت سے زیادہ مراعات حاصل کرنے اور فضول قسم کے فیصلے کرنے جو کہ یونیورسٹی ایکٹ اور یونیورسٹی کے قوانین میں نہیں ہوتے سے روکنے کے لیے سخت ضابطے ہونے چاہئیں، جامعات کے اندر وسائل کی مناسب کام اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button