لائف سٹائلکالم

خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیاں، دہشت گردی کے خلاف ایک جدوجہد

اے وسیم خٹک

خیبر پختونخوا میں پولیس شہریوں کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں دیگر سکیورٹی فورسز کے ساتھ پولیس نے بڑی قربانیاں دیں ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں جس کی واضح مثالیں پولیس اہلکاروں پر پے درپے ہونے والے حالیہ حملے ہیں۔ دیگر صوبوں کی بہ نسبت گزشتہ کئی سالوں میں پولیس کی سب سے زیادہ ہلاکتیں خیبر پختونخوا میں ہوئیں ہیں جس میں پشاور سب سے زیادہ ٹارگٹ میں رہا۔ موجودہ دور میں سب سے آسان ہدف پولیس کے اہلکار ہیں جو نامساعد حالات میں شرپسندوں سے کسی نہ کسی پولیس اسٹیشن یا چوکی میں نبردآزما ہوتے ہیں۔

امن عامہ کو برقرار رکھنے کے علاوہ پولیس اہلکار انٹیلی جنس اکٹھا کرنے، انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو ناکام بنانے کے لیے سرحدوں کو محفوظ بنانے میں سرگرم عمل ہیں جبکہ اکثر نامساعد حالات میں پولیس کی اپنی ڈیوٹی کے لیے لگن قابل ستائش ہے۔

اگر ہم گزشتہ تین چار مہینوں کے اخبارت کنگالیں تو ہمیں ہر دوسرے دن خیبر پختونخوا کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملے کی خبر ملے گی جس میں ہمارے نوجوان شہادت کے رتبے پر فائز ہو رہے ہیں۔ کہیں پر وہ دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں تو کہیں پر دشمن حاوی ہوجاتے ہیں کیونکہ آج کے دشمن کو ہم نے اتنا پڑھا دیا ہے کہ وہ اب ہمیں ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے اور ہم ان کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں جس کا ثبوت ہمارے پولیس کے عہدیداروں کے بیانات ہیں جس میں وہ اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔

یہ بات بجا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس نے گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران فرض کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے 1850 سے زائد اہلکاروں کی قربانی دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان قربانیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کے جان و مال اور خاص کر ان کے اہل و عیال کے تحفظ کے لیے کوئی قابل عمل لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جائے گا یا پھر ان کی ان بے تحاشہ قربانیوں کی واہ واہ پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔

1970 سے اب تک مختلف قسم کے حملوں اور مقابلوں میں مجموعی طور پر دو ہزار کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد سے گزشتہ 15 سالوں میں مارے گئے ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 1970 سے 2006 تک 389 پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ 2007 سے لے کر جولائی 2023 کے وسط تک خیبر پختونخوا میں 15 سو افراد جان کی بازی ہار گئے جن میں 1072 کانسٹیبل شامل تھے۔ پچھلے 15 سالوں کے دوران خیبر پختونخوا پولیس کے شہید ہونے والے ہیروز میں کچھ اعلیٰ افسران جیسے ایڈیشنل انسپکٹر جنرلز صفوت غیور اور اشرف نور، ڈی آئی جی ملک سعد اور عابد علی، چھ ایس ایس پیز/ ایس پیز اور 15 ڈی ایس پیز/ قائم مقام ایس پیز شامل ہیں۔ 2007 سے اب تک 32 انسپکٹرز، 109 سب انسپیکٹرز، 88 اے ایس آئیز، 155 ہیڈ کانسٹیبلز اور 1072 کانسٹیبلز نے مختلف حملوں میں ملک اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کیں۔

خیبر پختونخوا پولیس ریکارڈ کے مطابق 2007 میں 107 پولیس اہلکار، 2008 میں 172، 2009 میں 209، 2010 میں 107 اور 2011 میں 154، 2012 میں 106، 2013 میں 134، 2014 میں 1142، 2015 میں 61 پولیس اہلکار، 2016 میں 74، 2017 میں 36، 2018 میں 30، 2019 میں 38، 2020 میں 28 اور 2021 میں 59 پولیس اہلکار مختلف حملوں کا شکار ہوئے۔ ریکارڈ کے مطابق 2022 کے آخر میں حملوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ رواں سال کے دوران پولیس پر حملوں میں اب تک 100 سے زائد اہلکار جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2009 میں سب سے زیادہ 209 جبکہ سال 2018 میں سب سے کم 36 پولیس اہلکار مختلف دہشت گردی کے واقعات کا شکار رہے مگر سال 2023 میں ان حملوں میں بڑی تیزی آئی ہے جس میں پشاور پولیس لائن کے دھماکے میں 100 کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

پشاور پولیس لائن مسجد میں دھماکہ پاکستان کی تاریخ میں پولیس پر سب سے بڑا حملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ حملہ صوبے کے انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے مقام میں ہوا جس کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب سے احتجاج بھی کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں پولیس چوکیوں پر روزانہ کی بنیاد پر حملے ہو رہے ہیں، ان پر ہونے والے حملوں کے باوجود وہ ان حالات میں مقابلہ کرنے میں پیش پیش ہیں جبکہ پولیس کے ایک ایک اہلکار سے بارہ بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور بارہ گھنٹے تک مسلسل چاک و چوبند رہنا مشکل ہوتا ہے۔ بعض تھانوں میں ہر چھ گھنٹوں کے بعد ڈیوٹی تبدیل کی جاتی ہے اور چھ گھنٹے کا آرام دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مقابلے میں زخمی اہلکاروں کے لیے کوئی بڑا پیکج نہیں ہوتا بلکہ شہدا پیکج کے تحت ایک کروڑ تک شہید کی بیوی بچوں کو مل جاتا ہے، تنخواہ جاری رہتی ہے اور کسی ایک فرد کو ملازمت بھی دی جاتی ہے جبکہ زخمیوں کو چار سے پانچ لاکھ روپے دیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دوسری جانب شہدا کے پیکج کے حصول میں بھی شہید ہونے والے اہلکاروں کے خاندانوں کو اکثر مشکلات پیش آتی ہیں۔

جس تواتر سے پولیس اہلکاروں پر حملے ہو رہے ہیں اس کے مطابق موجودہ دور میں دہشت گردی سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے خیبر پختونخوا میں پولیس فورس کی تربیت اور تیاری کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے. انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں خصوصی تربیت انہیں غیر مستحکم حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر طریقے سے لیس کرے گی جبکہ انہیں جدید آلات، ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے طریقہ کار کی فراہمی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ان کی صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خیبر پختونخوا میں پولیس فورس دہشت گردی سے نمٹنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے میں ایک اہم ستون رہی ہے۔ سنگین خطرات کے پیش نظر ان کی غیر متزلزل لگن اور قربانیوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہیں ضروری وسائل اور مدد فراہم کر کے ہم انہیں دہشت گردی کے خلاف اپنی بہادرانہ جدوجہد جاری رکھنے کے لیے بااختیار بنا سکتے ہیں، تاکہ سب کے لیے ایک محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔ ضم اضلاع کے علاوہ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، صوابی، چارسدہ، پشاور اور سوات میں پولیس گاڑیوں اور چوکیوں کو قانون شکن عناصر کی جانب سے جس تیزی اور بے دردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے متعلقہ حلقوں کو نہ صرف اس کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے بلکہ اس سے پہلے کہ پانی ایک بار پھر سر سے گزر جائے اس حوالے سے کوئی مضبوط بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے سابق آئی جی پولیس سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ پولیس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان معلومات اکٹھا کرنا اور ہم آہنگی ضروری پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خاموش بیٹھنے کی بجائے دشمن کے خلاف پہل کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ مقدمات میں رجسٹر شواہد اکٹھے کیے جائیں اور ملوث افراد کو کٹہرے میں لایا جائے۔ حملوں کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے دوبارہ منظم کیا جانا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ ایس ایس پی کے پاس کافی سہولیات کا ہونا ضروری ہے، دور دراز علاقوں کے تھانوں کو سب سے زیادہ اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں بلٹ اور بم پروف گاڑیوں اور عمارتوں کے ساتھ تھرمل آلات بھی فراہم کیے جائیں تاکہ وہ شرپسندوں کا مقابلہ کرسکیں۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button