ابراہیم خان
ملک کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی سلامیاں ملنی شروع ہو گئی ہیں۔ انہیں پہلی سلامی ڈالر کی قیمت بڑھنے کی موصول ہوئی جو پاکستانی تاریخ میں پہلی بار 300 کے ہندسے کے قریب پہنچ گیا ہے جبکہ اگر صورتحال یہی رہی تو جلد ہی ڈالر کی یہ قیمت 300 سے بڑھ جائے گی۔ ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ غیر متوقع نہیں تھا اور نگران حکومت کے آنے سے پہلے اس امر کی پیشن گوئی کر دی گئی تھی کہ نئی حکومت کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے بڑا چیلنج معاشی صورتحال کا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی ڈالر کی قیمتوں کا شور تھما نہیں تھا کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ پٹرول کی اس قیمت میں اضافے کی ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ شہباز حکومت نے یکم اگست کو پٹرول اور ڈیزل دونوں کی قیمتوں میں لگ بھگ 20 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھا۔ نئی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ بھی سابق حکومت ہی کر کے گئی ہے لیکن اس کا سارا ملبہ نگران حکومت پر گر رہا ہے۔ اس بار جو اضافہ کیا گیا ہے اس کے تحت پٹرول فی لیٹر ساڑھے 17 روپے بڑھ گیا ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ ان دونوں اضافوں کی وجہ سے اب ملک میں مہنگائی دو آتشہ ہو جائے گی۔ ماہرین کے مطابق مہنگائی کا گراف بہت تیزی سے اوپر جائے گا۔ مہنگائی جس قدر اوپر جائے گی سابق حکومت کے بارے میں عوام میں پائی جانے والی نفرت اسی قدر نیچے جاتی جائے گی۔
سابقہ حکمرانوں کا خیال ہے کہ اس طرح انتخابات کے آنے تک عوام اتحادی حکومت کی مہنگائی کو اسی طرح بھلا چکے ہوں گے جس طرح اتحادی حکومت کے دوران عوام عمران خان کے دور حکومت میں ہونے والی مہنگائی کو بھلا چکے تھے۔نگران حکومت کو چونکہ عوام کی عدالت میں نہیں جانا ہوتا اس لئے آئندہ چند دنوں میں سخت فیصلے متوقع ہیں جن سے مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس کا نزلہ نگرانوں پر ہی گرتا رہے گا۔ عین ممکن ہے کہ سابق اتحادی حکومت بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نون اس پالیسی سےسیاسی رعایت حاصل کرنے کی خواہاں ہو، لیکن شائد اس پالیسی سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ ان اضافوں سے ایک بات واضح ہے کہ نگران حکومت سے پہلے جو سول اور عسکری تال میل چل رہا تھا اس میں سردست کوئی تبدیلی نہیں آئی تاہم عین ممکن ہے کہ حالات جوں جوں آگے بڑھیں تو نگران وزیر اعظم کی نامزدگی پر جو سرد مہری سابق اتحادیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان در آئی ہے وہ ختم ہو جائے۔
سابق اتحادی حکومت کے ساتھ عسکری قیادت کی جو قربت موجود تھی وہ اب نگرانوں کو منتقل ہو جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی حلقے جو انوار الحق کاکڑ کی بطور وزیراعظم تقرری پر بغلیں بجا رہے تھے ان کو حکومتی اننگز کی اوپننگ سے ہی سمجھ جانا چاہیے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر توڑ پھوڑ کا آپریشن پارٹ ٹو شروع ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کے پنجاب میں اہم رہنما صمصام بخاری کا ضمیر بھی تین ماہ بعد جاگ گیا۔ انہوں نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ دیا۔ اسی طرح 14 اگست کے روز جشن آزادی پر پولیس نے جس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں کو پارٹی کا جھنڈا لے کر چلنے سے روکا اس سے بھی یہ تاثر قوی تر ہوتا ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے رہنما ملک ساجد کو گرفتار کیا گیا، چند گھنٹے گرفتار رہنے کے بعد وہ سیدھے نیشنل پریس کلب اسلام آباد گئے اور 9 مئی کے واقعات کی مذمت کے بعد انہوں نے سیاست سے ہی توبہ کر لی۔ موصوف گرفتاری کے دوران اس حد تک خائف ہوئے کہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘سیاست نہیں اب میں اللہ اللہ کروں گا۔’
بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ اٹک جیل کی بیرک نمبر3 کے قیدی نمبر 804 (عمران خان) کے حالات بھی بدستور ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان میں مزید ابتری پیدا ہو گئی ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ قیدی نمبر 804 کے خلاف قائم مبینہ 180 مقدمات میں عدم پیشی کی وجہ سے جج حضرات کے فیصلے بھی اتنے بے رحم ہو گئے ہیں کہ وہ قیدی نمبر 804 کی ضمانتوں پر ضمانت عدم پیشی کی بناء پر منسوخ کئے جا رہے ہیں۔ ان ضمانتوں کی منسوخی کی وجہ سے اب وہ اگر ایک مقدمے میں رہائی حاصل کریں گے تو دوسرے میں اندر چلے جائیں گے۔ اس طرح یہ اسیری مسلسل برقرار رہے گی۔ یہ اسیری اگلے عام انتخابات تک برقرار رہی تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی اس طرح نہ عمران خان باہر آئیں گے اور نہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ گویا سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ مستقبل کا یہ نقشہ حکمرانوں نے تیار تو کر رکھا ہے، لیکن اس نقشے میں کوئی تبدیلی اگر آ سکتی ہے تو وہ براستہ اعلیٰ عدلیہ ممکن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اب بھی یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ عدالت عظمی کی طرف سے قیدی نمبر 804 کو 15 ستمبر سے پہلے ریلیف مل جائے گا۔
عدالت عظمی پاکستان کی طرف سے یہ ریلیف ضرور متوقع ہے لیکن یہ ریلیف بھی عمران خان کو اسی وقت ملے گا جب ہائی کورٹ ان کو سیشن عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف کوئی فیصلہ جاری کرے گا۔ عدالتی طریقہ کار کے مطابق چونکہ جج ہمایون دلاور نے انہیں سزا دی تھی اس لئے اب قیدی نمبر 804 براہ راست اپیل عدالت عظمی میں دائر نہیں کر سکتا۔ اسے درجہ بدرجہ اوپر کی عدالت تک پہنچنا ہے۔ دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ جج ہمایون دلاور کے فیصلے کے خلاف دائر رٹ جوں کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کیس میں جتنے ممکنہ تاخیری حربے عدالتوں میں چلتے ہیں وہ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قیدی نمبر 804 کو عدالت عظمیٰ تک رٹ کرنے کا موقع دینا بھی ہے تو وہ 16 ستمبر کے بعد موقع آنا چاہیے۔ مذکورہ تاریخ کو عدالت عظمی میں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی براجمان ہوں گے، عمران خان مخالف ساری لابی 16 ستمبر کی بے چینی سے منتظر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ 16 ستمبر سے عدالت زیادہ ستمگر بن جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو تو پھر حکومت کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا۔ جو لوگ جسٹس قاضی فائز عیسی کو قریب سے جانتے ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ سے اس قسم کی امیدیں وابستہ کرنا کہ وہ عمران خان کے خلاف آئین یا قانون سے ہٹ کر کوئی فیصلے جاری کریں گے تو ایسا سوچنا کچھ زیادہ قرین قیاس نہیں۔
نگران حکومت کے آنے اور ملک میں مہنگائی میں تیزی سے بڑھنے کے بعد صورتحال خاصی دلچسپ ہے۔ سیاسی محاذ پر دیکھا جائے تو اتحادی جماعتوں میں انوار الحق کے وزیراعظم بننے پر خاصی بے چینی ہے۔ ان کا یہ گلہ ہے کہ ان کو اس معاملے میں مشاورت تو درکنار اسٹیبلشمنٹ نے ہوا بھی نہیں لگنے دی اور اپنی مرضی کا وزیراعظم مسلط کر دیا۔ سابق حکمران اتحاد اور عسکری حلقوں کے درمیان نگران وزیراعظم کی نامزدگی سے جو دوری پیدا ہوئی ہے۔ اس کو پاٹنے کے لئے اب ان جماعتوں کے نمائندہ نگران وزراء کو کابینہ میں شامل کرنے سے ہی بات بنے گی۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھرپور طریقے سے اپنی کابینہ کے چناؤ میں مصروف مصروف ہیں۔ ان کی وزراء کی ٹیم جب فائنل ہو جائے گی، تو پھر مستقبل کی کوئی پیش بینی کی جا سکے گی کہ نگران حکومت کا جھکاؤ کس کی طرف ہے؟
یہاں ایک وضاحت بہت زیادہ ضروری ہے کہ کابینہ میں سابق حکمران اتحاد کے جتنے بھی نمائندے شامل ہو جائیں لیکن ان کے اوپر جو نگرانی کی جا رہی ہوگی یہ وزراء بلکہ پوری نگران حکومت اس نگرانی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ ان کے اختیارات تو پہلے سے ہی محدود ہیں لیکن ان کا دائرہ کار بھی بہت محدود رکھا جائے گا۔ اس اعتبار سے سیاسی نقشے میں تحریک انصاف والے جتنے بھی چھلانگیں لگائیں لیکن ان کے لئے کوئی رعایت تاحال دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان اگر کسی بین الاقوامی انصاف کے فورم کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں تو اس سے شائد کوئی تبدیلی واقع ہو لیکن یہ تبدیلی کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ فیصلہ سازوں نے جو فیصلہ کر رکھا ہے اس میں وہ کسی تبدیلی کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں۔
رہی بات ملک میں اگلے عام انتخابات کی تو اس پہیلی کی پہلی قسط سامنے آ گئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے فروری 2024ء تک انتخابات کے التواء کی نوید سنا دی ہے۔ یہ التواء کوئی حتمی نہیں ہے بلکہ اس میں مزید بھی تاخیر ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں بالکل چپ ساد رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن کو شہباز حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے با اختیار کر دیا گیا تھا کہ انتخابات کی تاریخ جو پہلے صدر مملکت دیتے تھے وہ اب الیکشن کمیشن دے گا۔ الیکشن کمیشن کی اب مرضی ہے کہ وہ انتخابات کب کراتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان عطاء عمر بندیال نے الیکشن کمیشن کے حکام سے استفسار کیا کہ انتخابات کس تاریخ کو کرائے جا رہے ہیں؟ تو الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کچھ بولنے کے بجائے اپنے کندھے اچکا کر تاریخ سے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابات کے انعقاد کا مستقبل قریب میں کوئی نام نشان دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ تاخیر جمہوریت کیلئے اچھا شگون نہیں۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں