ابراہیم خان
اللہ کا شکر ہے کہ یوم آزادی سے عین پہلے ملک کا کئی ماہ سے جاری مسئلہ حل ہوگیا، اور حل بھی ایسے ہوا کہ کسی کو حیران، کسی کو پریشان اور کسی کو انگشت بدندان کر گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کی مشاورت سے بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کے سینیٹر انوار الحق کو پاکستان کے آٹھویں نگران وزیراعظم کے منصب سے سرفراز کر دیا گیا۔ اس تعیناتی نے سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا۔ خاص طور پر ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی تو چلی نہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کو کسی نے گھاس ہی نہیں ڈالی۔
اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی ہاتھ ملتی رہ گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر باقی جماعتوں نے ،جن کو وزیر اعظم بننے کی آس دلائی تھی، انہوں نے تو شیروانیاں تک سلوا لی تھیں، ان کے دلوں کے ارمان تو آنسوؤں میں بہہ گئے۔ یہ بے چارے اپنے اپنے سیاسی پیشواؤں سے وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے۔ نگران وزیراعظم کے اعلان سے قبل ہر جماعت پرامید دکھائی دے رہی تھی کہ وزیراعظم کے منصب پر ان کا تجویز کردہ امید وار فائز ہوگا۔ مبصرین نئے وزیراعظم کی تعیناتی کے لئے تخیلات کے گھوڑے سرپٹ دوڑا رہے تھے تاہم جاننے والے اس وقت ہی بھانپ گئے تھے کہ نیا وزیراعظم کس کی مرضی سے آئے گا، جب وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کی دو مشاورت نشستیں ناکامی بے تیجہ ختم ہو گئیں۔
نگران وزیراعظم کے لئے ہونے والی یہ دونوں نشستیں بے نتیجہ اسی لئے ختم ہوئیں کہ دونوں میں سے کسی کے پاس وہ نام نہیں تھا جس کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانا مقصود تھا، جس نشست میں نگران وزیر اعظم کا اعلان ہوا، اس کا احوال بھی بہت دلچسپ ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کو سوتے ہوئے جگایا گیا کہ وہ اٹھ کر وزیر اعظم ہاؤس جائیں اور شہباز شریف سے اگلے وزیراعظم کے نام پر ختمی مشاورت کریں۔ راجہ جی نے جواب دیا کہ انہیں وزیراعظم نے نہیں بلایا لیکن انہیں پیغام رسا کے اصرار پر وزیراعظم ہاؤس جانا پڑا۔ راجہ ریاض کے وزیراعظم ہاؤس پہنچنے کی اطلاع شہباز شریف کو دی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو راجہ ریاض کو نہیں بلایا۔ بہرحال راجہ ریاض وہاں پہنچے اور وزیراعظم سے ملاقات شروع ہوئی تو تھوڑی ہی دیر میں وہ نام سامنے آ گیا جس کا دونوں نے اعلان کرنا تھا۔ دونوں کے پاس اس نام کے اعلان کے سواء کوئی چارہ نہیں تھا اس لئے دونوں نے فرمانبردار شہریوں کی طرح سینیٹر انوار الحق کے نام کا اعلان کر ڈالا۔
اس اعلان کے ہوتے ہی مبینہ طور پر بڑی سیاسی جماعتوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ باخبر سیاسی ٹویٹر خاموش ہو گئے۔ یہاں تک کہ شہباز شریف اور راجہ ریاض کی مشاورت سے بننے والے وزیراعظم کو مبارک باد تک بھی نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم کے نام کی سمری صدر عارف علوی کو بھجوائی گئی، صدر نے قومی اسمبلی تحلیل کی سمری کی طرح اس سمری پر بھی فوری طور پر اپنے دستخط ثبت کر دئے۔ یوں سینیٹر انوار الحق، جن کی سینیٹ کی رکنیت مارچ 2024ء میں ختم ہو رہی ہے، نگران وزیر اعظم بن گئے۔
ملک کے آٹھویں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ ایک مارچ 2018ء سے سینیٹ کے رکن ہیں۔ ان کا تعلق پشتون کاکڑ قبیلے سے ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، بعدازان لندن سے بھی اعلی تعلیم حاصل کی۔ انوار الحق کاکڑ بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہے ہیں۔
سردست وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے چیئر پرسن ہیں، سیاسی کیریئر میں انہوں نے 2008ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑ مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ انوار الحق کاکڑ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، خزانہ، خارجہ امور، بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کے نگران وزیراعظم بننے کے بعد بڑے عہدوں پر ایک دلچسپ صورتحال بن رہی ہے جس میں بلوچستان مرکز نگاہ بن رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چند دنوں میں ہی چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ تین اہم عہدوں پر بلوچستان کی اہم شخصیات براجمان ہوں گی۔
بلوچستان سے نگران وزیر اعظم سینیٹر انوارالحق کاکڑ، چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور 16 ستمبر سے چیف جسٹس بننے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چھوٹے صوبے سے بڑے عہدوں پر ہوں گے۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی بطور نگران وزیراعظم تعیناتی کے بعد اب اگلا مرحلہ نگران کابینہ کا تقرر ہے۔ انوار الحق کی تقرری سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ سابق اتحادی حکمرانوں کو اس تعیناتی میں سرے سے اہمیت نہیں دی گئی۔ جس سے مستقبل کا ایک دھندلا سا نقشہ تو سامنے آ گیا ہے کہ نگران سیٹ اپ میں سیاسی جماعتوں کی زیادہ نہیں چلنے والی۔ نگران کابینہ میں اب سب سے زیادہ اہمیت وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کی تعیناتی کا ہوگا۔ ان تینوں وزارتوں پر میاں نواز شریف آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان وزارتوں پر اگر سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدوار تعینات کئے جاتے ہیں تو اس سے یہ تاثر جائے گا کہ نگران حکومتوں کے دوران ان سیاسی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے گا جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پچھلے ڈیڑھ سالہ حکومت میں اپنی سیاست کو نقصان پہنچا کر ریاست کو بچانے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کیا۔ اس تعاون کے بدلے میں سیاسی جماعتوں کو کچھ ملتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن سردست وزارتیں اتنی نہیں جتنے وزارتوں کے امیدوار لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ ان کی امیدوں پر پانی پڑ گیا ہے۔ وزیراعظم کی تعیناتی سے انہیں ایک پیغام بہت واضح طور پر مل گیا ہے کہ آئندہ انتخابات تک چاہے جتنا بھی عرصہ گزرتا ہے، اس کے دوران ان سیاسی جماعتوں کا عمل دخل کم ہوگا۔
نگران کابینہ میں اگر ان جماعتوں کو حسب منشاء نمائندگی نہیں ملتی تو پھر کاکڑ حکومت کو یہ سیاسی جماعتیں جلد ہی ٹف ٹائم دینا شروع کر دیں گی۔ حسب منشاء وزارتیں نہ ملنے پر ان سیاسی جماعتوں کا پہلا مطالبہ جلد از جلد انتخابات کرانے کا سامنا آئے گا۔ یہ مطالبہ بظاہر ملک کی جو معاشی صورتحال ہے، اس کے پیش نظر فوری طور پر منظور ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک کے مقتدر حلقے یہ چاہیں گے کہ پہلے ملکی معیشت کو مستحکم کیا جائے اور اس کے بعد پھر عام انتخابات کا میدان سجایا جائے۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی تو کافی دنوں سے بروقت انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس لئے اسے تو اس نگران حکومت سے اس بارے میں مطالبہ کرنے میں بہت آسانی ہوگی لیکن وہ جماعتیں جو انتخابات کے انعقاد پر خاموش رہیں ان کے لئے اخلاقی طور پر نگرانوں سے فوری طور پر انتخابات کا مطالبہ کچھ زیادہ نہیں جچے گا۔
رہی بات پاکستان تحریک انصاف کی تو غالب امکان یہی ہے کہ اس کے بارے میں حکومتی پالیسی میں کچھ معمولی فرق ہو تو لیکن پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دوسری طرف تحریک انصاف جو پچھلے ڈیڑھ سال سے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، وہ جیسی بھی صورتحال ہوگی وہ اپنے انتخابی مطالبے سے دستبردار نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کا یہ مطالبہ جو اس وقت نقار خانے میں طوطی کی صدا ہے وہ آگے چل کر دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابی انعقاد کی اواز میں مل کر توانا ضرور ہو جائے گی۔ سیاسی جماعتیں مل کر سیاسی مزاحمت کریں گی جس سے نمٹنا ہی نگران حکومتوں کے لئے پہلا چیلنج ہوگا۔
نگران حکومت کے لئے دوسرا چیلنج انتخابات کے انعقاد کا ہی ہوگا کہ وہ انتخابات کب کرواتی ہے؟ نگران حکومت کا سب سے بنیادی فریضہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ نگران حکومت یہ انتخابات کب کرواتی ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ ان انتخابات کی راہ میں ملکی معیشت اور نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں حائل ہیں۔ یاد رہے کہ ملک میں نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت کرائے جائیں گے۔ نئی حلقہ بندیوں سے تو جان چھڑانے کے لئے نگران حکومت کے پاس عدالتی آپشن موجود ہوگا۔ جہاں اگر اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تو دو صوبوں کے نگران وزیراعلی کا ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کالعدم قرار دے کر نئی حلقہ بندیوں سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کا یہ فیصلہ حکومت اپنے اہداف کے حصول میں دونوں طرح سے استعمال کر سکتی ہے۔ اگر اس نے انتخابات جلد کروانے ہوں گے تو پھر عدالت کے ذریعے مشترکہ مفادات کونسل کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
دوسری طرف یہی فیصلہ اگر حکومت انتخابات کو معرض التواء میں ڈالنا چاہے گی تو پھر اس کو تاخیر کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
کاکڑ حکومت کو ایک اور بڑا چیلنج معیشت کی بحالی کا درپیش ہے۔ جون 2023 میں عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو جو بیل آؤٹ پیکج دیا ہے۔ اس میں تین ماہ کے اندر اندر ایک جائزہ آنے والا ہے۔ اس جائزے سے پاکستان کس طرح نکلتا ہے؟ اس کے لئے قومی اسمبلی نے نگرانوں کو پہلے سے بااختیار کر دیا ہے، لیکن اب مرحلہ یہ ہے کہ نگران دور میں وزارت خزانہ کا قلمدان کس کو سونپا جائے گا؟ مسلم لیگ نون اسحاق دار جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی حفیظ شیخ کے نام پر اصرار کرے گی۔ اس اہم پوسٹ پر مقتدر حلقے جو فیصلہ کریں گے وہی وزیر خزانہ بنے گا۔ یہی کلیہ دیگر وزارتوں پر بھی لاگو ہوگا۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو پچھلے ڈیڑھ برس میں اتحادی حکومت کو بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایشو کے علاوہ بعض امور میں سٹیبلشمنٹ کی طرف سے غیر مرئی سرخ لائنوں کا سامنا تھا۔ انوارالحق کاکڑ کو بھی اپنی حدود و قیود کا بخوبی ادراک ہے۔ کاکڑ بھلے پاکستان کے وزراء اعظم کی تاریخ میں بلحاظ عمر شائد سب سے کم عمر ہوں لیکن ان کا موقف اسٹیبلشمنٹ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سی پیک پر کامل دسترس رکھتے ہیں، جو صرف پاکستان کا نہیں بلکہ اس خطے کا بڑا معاشی منصوبہ ہے۔ انوار الحق کاکڑ انسانی حقوق کے معاملے پر مثبت سوچ رکھتے ہیں لیکن اس سوچ کی وجہ سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خاص طور پر نو مئی کے حوالے سے حکومتی موقف میں کوئی نرمی واقع ہوگی تو ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
عین ممکن ہے کہ حکومتی سطح پر بعض معاملات میں جن میں خواتین کی گرفتاری ہے، میں کوئی سہولت فراہم کر دی جائے گی۔ لیکن عمران خان کے معاملے پر کسی بڑی تبدیلی کی آس لگانا بے سود ہوگا۔ انوار الحق کاکڑ وہی کریں گے جو ان سے انہیں اقتدار میں لانے والے کہیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے باوجود یہ طے ہے کہ انتخابات کے بغیر کاکڑ حکومت جتنا طول پکڑے گی اتنے ہی ان کے لئے سیاسی چیلنجز بڑھتے رہیں گے۔ حکومت اگر 90 دن کے اندر اندر آئین کے تحت انتخابات کرا دیتی ہے تو جتنا کم دورانیہ ہوگا اتنی زیادہ کم مشکلات پیش آئیں گی۔ حکومت چاہے جس کی بھی خواہش پر طول پکڑے گی تو ملک میں سیاسی بے چینی بڑھے گی۔ مزاحمتی سیاست بڑھے گی تو حکومت کو بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا،جو حکومت کی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ کاکڑ حکومت اس متوقع احتجاج سے بچنے کے لئے وزارتوں کی چند ریوڑیاں ان سیاسی جماعتوں میں بانٹ کر ان کا منہ ابھی سے بند کر دے۔ بصورت دیگر یہ آگے چل کر انتخابات نہ ہونے کی صورت میں حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں