لائف سٹائلکالم

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نازیبا ویڈیوز سکینڈل اور والدین کے خدشات

 

محمد بلال یاسر

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے حاجی حبیب الرحمن حال ہی میں خود محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہوگئے ہیں۔ ان کی بیٹی ملک کی ایک معروف یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پیش آنے والے مبینہ سیکنڈل کے بعد سے وہ بہت زیادہ پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے شوق سے اپنی بیٹی کو پڑھایا اور چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں مگر ایسے واقعات ہر معاشرے میں ناقابل برداشت ہیں اور خاص کر پشتون قبائلی معاشرے میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بہت زیادہ فکر مند ہوگئے ہیں اور اپنی بیٹی کے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ خدشات کا شکار ہوگئے ہیں۔

خیال رہے چند روز قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں فحش ویڈیوز کا خطرناک سکینڈل سامنے آیا ہے۔ اس ویڈیو نے ملک بھر میں ہل چل مچا دی۔ سکینڈل کے بعد سے تعلیمی اداروں کے منیجمنٹ پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔

فحش ویڈیوز سکینڈل

بہاولپور پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں مدعی سب انسپکٹر محمد افضل نواز کے مطابق وہ چند پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بہاولپور میں بغداد الجدید موڑ پر ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اس دوران ایک سفید رنگ کی پرائیویٹ کار کو پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا تو ڈرائیور پولیس کو دیکھ کر رانگ سائیڈ پر گاڑی کو دوڑا کر لے گئے، جس پر پولیس نے پیچھا کر کے موصوف کو روکا تو گھبرا گئے۔ پولیس نے نشے کی حالت میں دیکھ کر تلاشی شروع کی تو گاڑی سے آئس ، چرس اور جنسی طاقت بڑھانے والی ادویات برآمد کی گئی اور پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ وہ یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر ہیں۔ موصوف کے پاس دو عدد موبائل تھے جن میں 5500 لڑکیوں کی فحش ویڈیوز اور تصاویر تھیں جس پر پولیس نے موبائل ضبط کرلیے اور کار میں سوار لڑکی کو پولیس نے عزت کا لحاظ کرکے اور بدنامی سے بچانے کے لیے والدین کو بلا کر ان کے حوالے کردیا۔ پولیس کے مطابق موبائل فون سمیت برآمد ہونے والی تمام اشیا کو فارانزک رپورٹ کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔

اصل مدعا طالبات کی فحش ویڈیوز یا منشیات
اصل مدعا تصویروں اور ویڈیوز کا ہے جو شوامی اور انفنیکس موبائل فونز میں ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات تو ذاتی استعمال کا بہانہ بنا کر معمولی جرمانہ کے بعد کوئی بھی چھوٹ سکتا ہے لیکن طالبات کو بلیک میل کرنا، جنسی ہراسانی اس کیس میں سب سے اہم ایشوز ہیں۔

یونیورسٹیز میں فحش ویڈیوز بن کیسے جاتی ہیں؟
ان یونیورسٹیز میں بچیوں کو ڈرایا جاتا ہے دھمکایا جاتا ہے کہ اگر پاس ہونا ہے تو یہ یہ مطالبات پورے کرو ورنہ آپ کے ساتھ ایسا ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بچیوں کو اُنکے فرینڈز، کلاس فیلوز کے ساتھ دیکھ کر اُن کے کردار کے متعلق فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ انکو پھنسایا جا سکتا ہے۔ بچیوں کے واش رومز میں بھی خُفیہ مائیکرو فونز اور کیمروں سے ڈیٹا لیا جاتا ہے۔

ویڈیوز کا مقصد 
یہ ویڈیوز پہلے تو بلیک میل کرنے کے لئے، دوسرا ڈارک ویب سائٹس پر فروخت کرنے کے لئے اور تیسرا اپنی مردانگی کو دوسرے مردوں کے سامنے دکھانے کے لئے رکھی جاتی ہے۔

مسئلے کا حل

رپورٹنگ: اللہ نہ کرے اگر کسی بچی کے ساتھ ایسا سانحہ ہو تو سب سے پہلے والدین اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ کو رپورٹ کیا جائے۔ یونیورسٹیز میں ہراسمنٹ رپورٹنگ سیلز بنائے جائیں جس میں قابلِ اعتماد بشمول خواتین اساتذہ ہو اور ان شکایتی کمیشن کا رابطہ براہ راست وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسگی سے ہو۔
زیرو ٹولرنس: بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ ایک بچی کے ساتھ مسئلہ ہوا تو مطلب آپ کی اپنی بچی محفوظ نہیں کسی مجرم کو نہ بخشا جائے۔ جہاں تک ہو اِس کا ذکر کریں اور حکومت وقت پر زور دیں کہ وہ ہر سطح پر اسکا سد باب کریں۔
تیسرا: ٹاسک فورس بنا کر ڈارک ویب سے ایسے افراد کو پکڑا جائے جو اِس چیز کو بیچنے میں مصروف ہیں۔
چوتھا: یونیورسٹیز میں انتظامیہ چیک اینڈ بیلنس رکھے اور سیکیورٹی کے معاملات میں ٹیچرز، سٹوڈنٹس اور والدین کوشامل رکھیں۔ صرف ایک بندے کو پور اختیار نہ دیا جائے۔

خیال رہے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا شمار ملک کی قدیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کی بنیاد 1925 میں جامعہ عباسیہ کی حیثیت سے رکھی تھی جبکہ 1975 میں اسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور قرار دیا گیا تھا۔ اس یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس رحیم یار خان، بہاولنگر اور لیاقت پور میں بھی موجود ہیں۔ اس یونیورسٹی میں مجموعی طور پر 65 ہزار طلباء مختلف کیمپسز اور شعبوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اس یونیورسٹی میں 148 مختلف شعبہ جات ہیں جن میں پانچ ہزارسے زائد ٹیچنگ اورغیر ٹیچنگ سٹاف خدمات انجام دیتا ہے۔

یہ واقعہ تو مشت نمونہ از خروار ہے۔ اس جیسے کتنے ہی جنسی بھیڑیئے تعلیمی درسگاہوں اور دیگر اداروں میں جنسی گدھ بن کر بہن ، بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اخلاقیات کی زوال کی طرف گامزن ہیں۔ آخر اس معاشرتی اخلاقیات کو ٹھیک کرنے کا بیڑا کون اٹھائے گا۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص کر عدلیہ اس جیسے جنسی بھیڑیوں کو قرار واقعی سزا دیکر نشان عبرت بنائے تاکہ ہماری بچیوں کی عزت محفوظ رہ سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button