لیتھیم ‘وائٹ گولڈ’، یہ ذخائز کتنے اہم ہیں؟
شاہ روم آمان
پچھلے ادوار میں انسان کو عشروں نہیں بلکہ صدیوں بعد کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملتی تھی مگر دور حاضر میں آئے دن نئی نئی تبدیلوں اور ایجادات نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ جہاں کبھی پیٹرول کی دریافت نے عرب ممالک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا تو وہیں آج لیتھیم کی دریافت بہت سارے ممالک کو گرین سگنل دکھارہی ہے۔
لیتھیم ایک معدنی جزو جس کو ‘وائٹ گولڈ’ بھی کہا جاتا ہے جس کا استعمال جوہری توانائی، روبوٹک ٹیکنالوجی، گرمی سے بچنے والے شیشے، موبائل فونز، لیپ ٹاپ اور گاڑیوں کی بیٹریوں اور دماغی امراض کے ادویات کے علاوہ بھی دوسری کئی چیزوں میں ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ مستقبل کی دھات ہے جس کی ڈیمانڈ میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں لیتھم مارکیٹ کا حجم 3.95 ارب ڈالر تھا جو 2030 تک 25 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور اس کی مانگ جو 2021 میں 5 لاکھ ٹن تھی 2030 تک 40 لاکھ ٹن تک پہچنے کی توقع ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں لیتھیم کی قیمت میں 200 فیصد تک کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور موجودہ سال 2023 میں لیتھیم کی قیمت 77000 ڈالر فی ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کے مقابلے کے لیے پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کی بہ نسبت بیٹریوں سے چلنے والی گاڑیوں کو زیادہ ترجیح دینا ہے۔
ماہرین کے مطابق 2030 تک الیکٹرک گاڑیوں کی سالانہ مارکیٹ 800 بلین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ امریکہ سمیت یورپ میں 2030 کے بعد شاید ہی کوئی ایسی گاڑی ہوگی جو الیکٹرک نہ ہو. آج گاڑیاں چلانے کے لیے جتنا اہم عرب ممالک کا تیل ہے 10 سال بعد یہ جگہ بیٹریاں لے لیگی جس کی وجہ سے موجودہ اندازے کے مطابق 2040 تک اس کم وزن والے دھات اور تیل کے مقابلے میں ماحول دوست توانائی کے طور پر جانے والے لیتھیم کی ڈیمانڈ میں 400 فیصد تک کا اضافہ ہو جائے گا اور اسی بڑھتے ہوئے ڈیمانڈ کے پیش نظر ایک طرف کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی موقع پر لیتھیم کی پیداوار اس کی بڑھتی ہوئی طلب کا بوجھ ہی نہ اٹھا سکے لیکن دوسری طرف ایک حالیہ سروے میں یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ لیتھیم دنیا میں وافر مقدار میں موجود ہے۔
سروے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کی کانوں میں ڈیڑھ کروڑ ٹن لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں جبکہ 200 ارب ٹن لیتھیم سمندروں کے پانی میں بھی موجود ہے جو اس کے علاوہ ہے۔ پاکستان میں بھی لیتھیم کے ذخائر کی خوشخبری سنا دی گئی ہے۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق چترال، گلگت بلستان، بلوچستان میں چاغی کے بنجر جھیلوں، پنجاب اور سندھ میں چولستان تھر کے صحراؤں کے علاوہ جنوبی پنجاب کے علاقے میں بھی لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں لیتھیم کے ذخائر کی بہتر تحقیق کے لیے چین پاکستان جوائنٹ ریسرچ سنٹر برائے ارتھ سائنسز اور چین کی’ تیان چھی’ کمپنی کے درمیان تزوراتی معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔
معاہدے کے مطابق دونوں فریق پاکستان میں لیتھیم کی تحقیق اور استعمال پر ایک دوسرے کا تعاون کریں گے اور موجودہ صورت حال میں کمزور پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے لیتھیم کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کی اشد ضرورت ہے مگر بد قسمتی سے فلوقت اس سے فائدہ اٹھانا دیوانے کا خواب اس لیے نظر آرہا ہے کہ ہماری معدنی و سائل کی مختلف کیٹگریز مثلا محدود معدنیات، ترجیحی معدنیات اور سٹرٹیجک معدنیات کی درجہ بندی سے متعلق مناسب پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے حکومت کی طرف سے شائد ہی کبھی سنجیدہ نظر سے دیکھا گیا ہو۔
پاکستان کو قدرت نے 92 حیرت انگیز قدرتی معدنیات سے نوازا ہے مگر بد قسمتی سے ایک طرف ہماری معدنیات کی تلاش اور استعمال کی سرگرمیوں کو ہماری صنعتی زرعی اور دیگر ملکی ضروریات کے مطابق بنانے کے لیے جس طویل المدتی منصوبے کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔ تو دوسری طرف بدامنی کی اجدہانے اس خطے پر پنجے گھاڑ رکھے ہیں۔ اگر اس خطے پر رحم کھا کر عالمی طاقتوں نے امن کا پرچم لہرانے دیا تو کچھ ہی عرصے میں قدرتی وسائل اور بلخصوص لیتھیم کی برکت سے اس خطے کی تقدیر بدل جائے گی جس میں ہمارا پڑوسی ملک افغانستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیوںکہ ایک سروےکے مطابق افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروس میں تین ٹریلین ڈالر مالیت کے لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اگر افغانستان کو چند سال امن وامان سے رہنے دیا جائے تو افغانستان دنیا کے امیر ترین ممالک کے صف میں شامل ہو سکتا ہے بلکہ ایک امریکی جریدے نے تو افغانستان کو لیتھیم کا سعودیہ عرب اور لیتھیم کو اکیسویں صدی کا پٹرولیم قرار دیا ہے اور شائد افغانستان میں امریکی موجودگی لیتھیم سے بھی وابستہ تھی مستقبل میں افغانستان لیتھیم کی وجہ سے ایک امیر ترین ملک تصور کیا جاتا ہے کیوںکہ اس وقت دنیا بھر کی لیتھیم کی 60 فیصد ضروریات دنیا کے تین ممالک ارجنٹینا، بولیویا اور چلی پورا کر رہے ہیں میں اس کے وسیع ذخائر موجود ہے جن کو لیتھیم تکونی ممالک بھی کہا جاتا ہے مگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی وجہ سے ایشیائی ممالک کے لیے ان میں سرمایہ کاری کرنا اور پھر ڈھونا غیر منافع بخش سودا ہے اس لیے چاہے ہندوستان ہو چین ہو یا روس ان کی نگاہیں افغانستان کی لیتھیم کی ذخائر پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اسیٍ لیتھیم کی وجہ سے چین نے شاید افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے ہیں۔
متعدد رپورٹس کے مطابق چین افغانستان میں اپنی موجودگی قائم کرنا چاہتا ہے طالبان کی تعاون سے ایک طرف اگر چین ان ذخائر سے مستفید ہوگا تو دوسری طرف افغانستان کو بھی فائدہ ہوگا اور دونوں کے درمیان چوٹی سرحد اس میں معاون ثابت ہوگی ۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ سی پیک کی وجہ سے اس کا فائدہ پاکستان کو بھی بہت زیادہ ہوگا، گوادر کی وجہ سے افغانستان چین کے ساتھ ملکر پاکستان کا راستہ استعمال کرے گا۔ افغانستان میں امن پاکستان کو سنٹرل ایشیا سمیت پورے ریجن کا تجارتی مرکز بنا دیں گا، پاکستان کے لیے وسطی ایشیا کا توانائی سے مالامال علاقہ بھی کھل جائے گا اور اگر پاکستان بھی اپنے ذخائر استعمال کرتا ہے تو یہ ایک انقلابی معاشی صورت حال ہوگی اور اس سلسلے میں کچھ دن پہلے اسلام آباد میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزارت خارجہ کے سہ فریقی مذاکرات میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کا عزم ایک خوش آئند خبر ہے۔
اس حوالے سے افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ اس منصوبے سے افغانستان خطے کے ممالک اور یورپ سے منسلک ہو جائے گا، ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی جبکہ توانائی کے منصوبوں کی تکمیل اور صنعتی ترقی ممکن ہوگی۔