دی گیم از اوور
ابراہیم خان
پاکستان تحریک انصاف جن بیساکھیوں کے سہارے حقیقی معنوں میں ملک گیر جماعت بنی تھی یاد نہیں رہا کہ وہ بیساکھیاں نہ جانے انگریزی کے کون سےحرف تہجی والی پولیٹیکل تھیں؟ البتہ ایک بات طے ہے کہ اکتوبر 2010ء والی بیساکھیاں اے پولیٹیکل نہیں تھیں اسی لیے ان بیساکھیوں نے پاکستان تحریک انصاف کو کھڑا کرنے میں اس قدر اہم کردار ادا کیا۔
وقت گزر گیا، جناب عمران خان وزارت عظمیٰ پر براجمان ہو کر بھی اپنی حدود وقیود کا ادراک نہیں کررہے تھے۔ اس لیے 2022ء میں بیساکھیاں اے پولیٹیکل ہوگئیں لیکن کپتان پوری طرح "پولیٹیکل” ہی نہیں ہورہے تھے اور نہ یہ چاہتے تھے کہ کوئی اور اپنا "اے” پولیٹیکل سٹیٹس بدلے۔ ایسے میں کپتان کی حکومت بھی گئی اور اپوزیشن کی صعوبتیں بھی سہتے گئے۔
بیساکھیوں سے تقاضا کرتے رہے کہ وہ اے پولیٹیکل نہ رہیں۔ پہلے اشاروں، کنایوں اور پھر زبانی کلامی بھی کہا کہ چھوڑو اے پولیٹیکل کیا ہوتا ہے۔ اپنی بات کو زوردار بنانے کے لیے جانور بھی کہہ ڈالا لیکن ان کا سٹیٹس نہ بدلا۔ بظاہر کپتان کی یہ خواہش کہ وہ پھر سے سیاست میں گھس جائیں پوری نہیں ہورہی تھی لیکن 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات نے ایسی کایا پلٹی کہ پاکستان تحریک انصاف چند دن کے اندر اندر بلندی سے پستی پر آ گئی۔
شاعر سے معذرت کے ساتھ، دو ہفتوں میں ایسا ماجرا ہوگیا کہ پی ٹی آئی کا اچانک صفایا ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے سورماؤں کے غباروں سے ہوا نکل گئی۔ پریس کانفرنسز کی ایسی بھرمار ہوئی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنماء اور موجودہ دور میں پھر سے گلوکار ابرارالحق کو اپنا گانا اب یوں ترتیب دینا چاہیے کہ کنے کنے جانڑاں اے پریس کلباں نو یار/ ٹکٹ کٹاؤ لائن بنڑاؤ۔
پاکستان تحریک انصاف میں آنے والے وہ پنچھی جو بیساکھیوں کے اشارے پر آئے تھے ان کے جانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں وہ پتے بھی ہوا دے گئے جن پر سالہاسال سے عمران خان تکیہ کرتے تھے۔ ان پریس کانفرنسز کا حیرت انگیز طور پر سکرپٹ بھی ایک جیسا تھا۔ اس پریس کانفرنسز میں بھی عمران خان سے جو وفاداری کی رمق دکھا سکتا تھا اس نے مختصر الکلامی کو اپنایا۔
پاکستان کے پریس کلبز اگر ان پریس کانفرنسز کی طوالت کا ریکارڈ رکھتے تو شائد مختصر ترین پریس کانفرنس کے نئے ریکارڈ قائم ہو جاتے۔ جیسے سیف اللہ نیازی نے "تحریک انصاف چھڈو تحریک”کے سلسلے میں صرف 52 سیکنڈ کی پریس کانفرنس کرکے منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ اس ریکارڈ کو توڑنے کے لیے بے چارے پرویز خٹک نے بھرپور کوشش کی لیکن شومئی قسمت کہ پرویز خٹک صرف ایک سیکنڈ کے فرق سے سیف اللہ نیازی کا ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہے۔ ان کی پریس کانفرنس 53سیکنڈ چلی۔
ان پریس کانفرنسز کا حیرت انگیز طور پر انداز بھی ایک سا تھا اور پریس کانفرنس کرنے والوں کی حالت دیکھ کر سارا فسانہ سمجھ میں آجاتا تھا کیونکہ پہلے تو ان کی اجڑی شکلیں بتا دیتی تھیں کہ یہ کیا کہنے والے ہیں لیکن اب بات اتنی بڑھ گئی ہے کہ نام سنتے ہی رپورٹر پرانی خبر میں پورے اعتماد سے نام ایڈٹ یا اپڈیٹ کرکے "سنڈ” کردیتے ہیں۔ ان رپورٹرز کا اب اتنا تجربہ ہوچکا ہے کہ وہ جیل سے آنے والے کی چال ڈھال دیکھ کر ہی بتا دیتے ہیں کہ اس کا سوفٹ ویئر "آپ ڈیٹ”’ہوچکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے پاس آپشنز تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ پچھلے ایک برس سے سیاسی جماعتیں عمران خان سے کہہ رہی تھیں کہ آئیں بیٹھ کر مذاکرات کریں لیکن اس وقت عمران خان مقبولیت کے گھوڑے پر سوار تھے اور وہ مذاکرات کے لیے کسی سیاسی جماعت کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ کپتان کو اس وقت بھی اگر تلاش تھی تو وہ بھی صرف اپنی گم گشتہ بیساکھیوں کی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے مشورہ دیا تو کپتان نے اپنی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی مذاکرات کی میز پر بھیج دی۔ ان مذاکرات کے بارے میں مسلم لیگ نون نے جو رپورٹ عدالت عظمی میں جمع کرائی تھی اس میں مبینہ طور پر جون میں اسمبلی توڑنے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ وفاقی وزیرِ قانون نذیر تارڑ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی ٹیم اس پیش رفت کے بارے میں عمران خان کو آگاہ کرنے باہر گئے، اس کے بعد مذاکرات ختم ہوگئے کیونکہ کپتان کو اعتماد نہیں تھا۔ عمران خان نے ان مذاکرات کو لات ماری لیکن 9 اور 10 مئی کے بعد کے حالات میں پارٹی فارغ ہوگئی۔
وقت اس قدر تیزی سے بدلا ہے کہ اب کپتان اپیل کررہا ہے کہ مذاکرات کئے جائیں لیکن کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں۔ عمران خان مذاکراتی ٹیم ازخود بناتے ہیں لیکن ٹیم کے گھاگ رکن پرویز خٹک پارٹی عہدہ چھوڑ کر کپتان کو بیک فٹ پر لے جاتے ہیں۔
کپتان تیزی سے تنہا ہو رہا ہے، بدلے حالات میں بیساکھیاں انہیں نہ صرف دکھائی دے رہی ہیں بلکہ پوری شدت محسوس ہو رہی ہیں۔ پھر کپتان دھاڑ رہا ہے کہ آخری گیند تک لڑوں گا ان کا عزم شائد مضبوط ہو لیکن اگر وہ کرکٹ کی آخری گیند کی بات کررہے ہیں تو کرکٹ میں پوری ٹیم لازمی درکار ہوتی ہے۔ میدان سیاست کی اگر بات کریں تو اس میدان میں بھی ٹیم لازمی درکار ہوتی ہے تو پھر کپتان کو اب سمجھ جانا چاہیے کہ ان کو طے شدہ پروگرام کے تحت انتخابی سیاست سے آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جس طرح تتر بتر ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے سردست تو یہی دکھائی دیتا ہےکہ اب اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کا کوئی رول نہیں ہوگا۔
حکومت اور اس کے طاقتور معاونین نے تحریک انصاف کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ پارٹی کارکنوں میں سراسیمگی پھیل چکی ہے اور جلد یا بدیر جب عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی تو وہ مشہور و معروف "ریڈ لائن” کا تماشہ بھی چشم فلک دیکھ لے گی۔ 9 اور10 مئی کو کس نے کیا کیا اس سے قطع نظر طاقت کے استعمال سے یہ سوال ہے غائب ہوچکا کہ ان مقامات کو بچانے والے اہلکار کہاں تھے؟ یہ سوال آج نہیں تو کل اٹھے گا۔
سردست ان حالات میں سب سے زیادہ مسرور مسلم لیگ نون ہے۔ اسے لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ہے۔ انتخابات سے پہلے اس کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو چاروں شانے چت کردیا گیا ہے۔ اب یہ بات ہو رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک نیا چہرہ تیار کیا جائے جو کپتان سے پاک ہو۔ ایسی پارٹی بن سکتی ہے لیکن وہ عمران خان کی تحریک انصاف جیسی نہیں ہوگی نہ اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم صفدر پورے سکرپٹ سے باخبر تھیں اس لئے انہوں نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے عمران خان کو کہا تھا "دی گیم از اوور” مریم نے درست کہا تھا لیکن نہ جانے کپتان کو ان دنوں بات دیر سے کیوں سمجھ آرہی ہے۔