سیاستکالم

اکیسویں صدی کا بہادر شاہ ظفر؟

 

ابراہیم خان

مغل سلطنت کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی رسم تاجپوشی 30 ستمبر 1837کو دہلی میں ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تخت ہند میں لگائی گئی نقب کو مضبوط کرلیا تھا۔ معیشت روبہ زوال تھی اس کے باوجود برصغیر کے طول وعرض سے عوام اس جشن میں شریک ہوئے۔ جشن منانے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ ہندوستان میں اس قدر دولت تھی کہ بہادر شاہ ظفر کا اقتدار اکتوبر 1858ء تک چلا۔

آخر کار انگریز نے جب یہ فیصلہ کیا کہ اب مغلوں کے اس رسمی شاہ کو فارغ کرنے کا وقت آگیا ہے تو انگریزوں نے 83 سالہ بوڑھے تاجدار ہند کے سامنے اس کے چار بیٹوں کے سر قلم کروائے۔ اس موقع پر بربریت بھی کی گئی اور بہادر شاہ ظفر کو 33 افراد کے ساتھ برما کے شہر رنگون بھیج دیا گیا۔ 17 اکتوبر 1858ء کو رنگون میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کیپٹن نیلسن ڈیوس نے دہلی سے آنے والے بحری جہاز سے شہنشاہ ہند اور اس کے ساتھ آنے والوں کو کسی سامان کی طرح وصول کیا اور وصولی کی رسید جاری کردی۔ نیلسن نے رنگون شہر کی جیلوں کا جائزہ لیا تو اس میں اسے کوئی ایسی موزوں جیل نہیں دکھائی نہیں دی جہاں شہنشاہ ہند کو رکھا جا سکتا۔نیلسن نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنی سرکاری رہائش گاہ کے گیراج کو صاف کروایا اور اس تاریک گیراج میں بہادر شاہ ظفر کی چارپائی ڈلوا دی۔

کیپٹن نیلسن نے یہ سہولت بہادر شاہ ظفر کو اس لئے دی کہ وہ شہنشاہ ہند تھا۔ بہادر شاہ ظفر انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اس گیراج میں چار برس تک پڑا رہا۔ وہ 7 نومبر 1862ء کی صبح اس دارفانی سے کوچ کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ حالت نزع میں وہ بار بار گیراج میں کھلنے والی کھڑکی کھولنے کیلئے منتیں کرتا رہا لیکن تازہ ہوا کا جھونکا اسے نہ ملا۔کیپٹن نیلسن نے بہادر شاہ کے فرزند جواں بخت اور اس کے استاد حافظ ابراہیم دہلوی کو بلوایا اور اپنی سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں ہی قبر کھدوانے کی اجازت دی۔ اس کا جنازہ بھی غریب الوطنی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بہادر شاہ کی لاش سپرد خاک کر دی گئی۔ جیسے تیسے قبر پر مٹی ڈالی گئی۔ ابراہیم ذوق نے قبر کے پیر کی طرف کھڑے ہوکر سورہ توبہ کی چند آیات پڑھیں۔ دعاء کی گئی۔ بہادر شاہ کے رفقاء بادشاہ کے مرنے سے زیادہ اس بے قیر تدفین پر رو رہے تھے۔کیپٹن نیلسن ڈیوس کے بھی اس انجام کو دیکھ کر آنسو جاری ہوگئے تو اس نے تیزی شاہ کی قبر کو سلیوٹ کیا اور گھر کےاندر چلا گیا۔یہ بہادر شاہ ظفر کو کیا گیا آخری سلیوٹ تھا۔

بہادر شاہ ظفرکی یاد آج اس لئے آئی کہ اس سے مشابہ نہ سہی لیکن اسی طرح کی بے ثباتی کے مناظر ان دنوں لاہور کے زمان پارک کے اطراف میں پائے جارہے ہیں۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں ہر وقت میلے کا سا سماں ہوا کرتا تھا۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ کے خواہشمند ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے۔ ٹکٹ کا حصول ایسا جانا جارہا تھا جیسے یقینی کامیابی کی ضمانت۔ گویا عوام و خواص کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ عمران خان صاحب کے دیدار کیلئے ان کے مداح لمبے چوڑے انتظار کیا کرتے تھے۔ 9 مئی کا ایسا ماجرا ہوا کہ زمان پارک میں عمران خان کے گھر کے اندر اور باہر دونوں کا نقشہ ہی بدل گیا۔ پہلے جس کو ٹکٹ نہیں ملا تھا وہ ٹکٹ کی تقسیم پر احتجاج کررہاتھا لیکن اب جو ٹکٹ ہولڈرز ہیں وہ بھی ٹکٹ واپس کررہے ہیں۔

9 مئی کے بعد عمران خان 2023ء کے بہادر شاہ ظفر بننے جارہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ وہ اب بھی اپنی بقاء کیلئے آخری آخری کوششیں کررہے ہیں۔ ان کی زنبیل میں کون سے ترکش چھپے ہیں ؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سردست انہوں نے یہ شوشا ضرور چھوڑا ہے کہ وہ سرپرائز دیں گے۔ ماضی میں وہ جب سرپرائز کی دھمکی دیتے تو اتحادی حکومت اسے سنجیدگی سے لیا کرتی تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے وہ پہلے کہتے رہے کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑتا ہوں لیکن پھر اچانک ان اسمبلیوں پر کلہاڑا چلا کر سرپرائز دے دیا۔ اب ان کے سرپرائز کو حکومت بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔کپتان کے ساتھیوں کے غول کے غول ان کو جھوڑ کر جا رہے ہیں۔بات ان کے جانے تک محدود نہیں بلکہ جن کے پاس آئندہ انتخابات کا ٹکٹ تھا وہ ٹکٹ بھی واپس کر رہے ہیں۔ عمران خان کے آس پاس دوستوں کی تعداد ختم ہو چکی ہے۔حکومت انہیں تنہا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ ایسے میں اب عمران خان کے پاس کیا آپشن بچے ہیں اور انہیں وہ کس طرح استعمال کرکے اپنے آپ کو بہادر شاہ ظفر بننے بچاتے ہیں۔

عمران خان موجودہ حالات میں مذاکرات کرنے اور اس کے لئے تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کرکے بڑی غلطی کر چکے ہیں۔ اس کمیٹی کے قیام کے بعد خاص طور پر مسلم لیگ نون کی طرف سے جو ری ایکشن آیا وہ متوقع تھا۔ عمران خان پورے ایک سال سے اتحادی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی جو بھی پیشکش ہوتی تھی اس سے انکار کر دیتے تھے۔ ان اوپر تلے ہونے والے انکاروں کے بعد یہ توقع کرنا کہ تحریک انصاف مشکل میں پھنس کر مذاکرات کی دعوت دے دی گی تو حکومت جیسے دوڑی چلی آئے گی۔ عمران خان کے لئے یہ آپشن سرے سے اب موجود ہی نہیں تھا۔ عمران کے پاس اس وقت جو آپشن موجود ہے وہ یہ ہے کہ خاموش بیٹھ کر انتظار کریں کہ ان کی جماعت سے جانے والوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔ جانے والے چلے جائیں گے تو اس کے بعد عمران خان کو صحیح اندازہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کتنے لوگ باقی بچے ہیں؟یہ وہی لوگ ہونگے جن پر عمران خان بڑے سے بڑا بھروسہ بھی کر سکیں گے۔ اس لئے کہ ان کی وفاداری اب ہر قسم کے شک سے بالاتر ہوجائے گی۔ عمران خان جب اپنی ٹیم بنا لیں گے تو اس کے بعد انہیں نئی حکمت عملی مرتب کرنے میں زیادہ آسانی مل جائے گی۔ موجودہ حالات میں ان کے فیصلے مذاکرات کی پیشکش کی طرح بیک فائر کر سکتے ہیں۔ اس لئے پہلا آپشن تو یہی ہے کہ عمران خان خاموش ہو کر بیٹھیں اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔

پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے پاس دوسرا اور سب سے اہم آپشن یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا اثاثہ جو کارکن ہیں انہیں بچانے کے لئے اپنا تمام تراثر رسوخ استعمال کریں۔ خاص طور پر وہ کارکن جن کے مقدمات ملٹری کورٹس میں ہیں، ان کو اس مشکل وقت سے نکالنے کے لئے جتنی بھی کوشش کی جائے وہ اصل میں عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ عمران خان اب تک اس حقیقت کو جان چکے ہونگے کہ کسی بھی جماعت کا سرمایہ اس کے کارکن ہوا کرتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں میں جس قدر جنونیت ہے ،وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ قیادت اس وقت انہیں اس مشکل سے نکالنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دے۔

عمران خان کے پاس ایک ممکنہ آپشن یہ بھی آسکتی ہے کہ حکومت انہیں بیرون ملک جانے کی پیشکش کر دے۔ عمران خان کو ایسی کسی بھی پیشکش سے دور رہنا ہوگا کیونکہ اگر باہر جانے کی کوئی بھی پیشکش وہ قبول کرتے ہیں یا انہیں اس پر مجبور کیا جاتا ہے،تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کے تابوت میں خود آخری کیل ٹھونک دیں گے۔اس اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کے قائد کو پہلی دو آپشنز تک ہی محدود رہنا ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف جس شکست و ریخت سے گزر رہی ہے،اس میں اب باقی بچی کھچی قیادت کو ساتھ ملا کر قدم آگے بڑھا ہوگا۔ عمران خان جس طرح بے اعتدالیوں کے ساتھ بات کرتے رہے ہیں اور پھر اس پر یوٹرن لیتے رہے ہیں۔ اب ان کے پاس یو ٹرن لینے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

عمران خان کو مذاکرات کی بات سر عام کرنے کے بجائے، اب اتحادی حکومت میں شامل ان جماعتوں سے کرنی چاہیے جو جمہوری اقدار کا چرچا کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے بات کرنا ان کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔موجودہ حالات میں وہ اگر کھلے عام مذاکرات والی بے تکی پالیسی اختیار کریں گے تو اس سے ان کی نہ صرف سبکی ہوگی بلکہ وہ خودکو بہادر شاہ ظفر کے انجام کی طرف مائل کر لیں گے جو ان کے مفاد میں نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button