عوام کی آوازکالم

سستا آٹا اور عوام: ’عزت نفس تو آپ ہماری کچل چکے ہیں اب سر بھی کچل دیجئے’

حمیرا علیم

کسی زمانے میں لوگ زن، زر اور زمین کے لیے لڑتے تھے اور قتل ہو جاتے تھے یا قتل کر دیتے تھے۔ پھر وقت بدلا اور آٹا، چینی، تیل، پانی، گیس بجلی جیسی بنیادی ضروریات زندگی اس قدر نایاب اور قیمتی ہو گئیں کہ لوگ ان کے حصول کے لئے لڑنے مرنے پر تل گئے۔

چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک شخص کو تنخواہ ملی تو وہ گھر کا راشن خرید کر سائیکل پر سوار گھر کی طرف جا رہا تھا ایک تنگ و تاریک گلی سے دو اشخاص نکلے اسے گن پوائنٹ پر لوٹنے کی کوشش کی مگر اس شخص نے چیزیں دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو یہ چیزیں مت لو یا پھر مجھے گولی مار دو کیونکہ میں خالی ہاتھ گھر جا کر اپنے بیوی بچوں کی سوالیہ نظروں کا جواب نہیں دے سکتا، اس پر ڈاکوؤں نے اس پر کمال مہربانی کرتے ہوئے آدھا سودا اسے دے دیا۔

پھر ایک ویڈیو ایسی بھی دیکھی جس میں ایک فوڈ کمپنی کے رائیڈر سے بائیک اور پیسے چھین کر جب ڈاکو جانے لگے تو اس کے زار و قطار رونے پر رک کر اس سے وجہ پوچھی اس نے بتایا کہ یہ بائیک کمپنی کی ہے اور آج اسے پندرہ ہزار تنخواہ ملی تھی جس سے اسے گھر کا خرچ چلانا ہے اور وہ گھر کا واحد کفیل ہے، اگر بائیک چھن گئی اور پیسے بھی نہ رہے تو ملازمت بھی جائے گی اور گھر والے بھی بھوک سے مر جائیں گے جس پر ڈاکوؤں نے نہ صرف اسے چھینی ہوئی رقم اور بائیک واپس کر دی بلکہ اسے گلے لگا کر تسلی بھی دی۔

آج کل کے ڈاکوؤں کے دل میں پھر بھی کچھ رحم ہے مگر ہمارے حکمران تو جیسے دل کی جگہ پتھر رکھتے ہیں۔ تبھی تو جن اشیاء کی قیمتیں پہلے ہر سال جون کے بجٹ میں چند روپے بڑھا کرتی تھیں اب ان میں آئے دن سینکڑوں کے حساب سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ قیمتوں میں سو روپے کا اضافہ کر کے دو روپے کی سبسڈی دے کر عوام کو خوب بے وقوف بنایا جاتا ہے اور اس سبسڈی کے بھی کئی روپ ہیں جیسے کہ ایک خبر ہے کہ پنجاب میں اب عمومی سبسڈی کے بجائے ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی، رمضان میں مفت آٹے کی تقسیم کرنے کے لیے محکمہ خوراک کی لائسنس یافتہ 11 ہزار دکانوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

10 کلو سرکاری آٹے کے تھیلے کی قیمت میں بھی 510 روپے اضافے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد دس کلو سرکاری آٹے کے تھیلے کی قیمت 648 سے بڑھ کر 1158 روپے ہوگی۔

سرکاری گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافے کے بعد نجی آٹا بھی مہنگا ہوگا 20 کلو نجی آٹے کا تھیلا 2600 سے 3300 روپے میں فروخت کیا جانے لگا جب کہ سرکاری گندم کی قیمت فروخت 2300 سے بڑھا کر 3900 روپے فی من مقرر کردی گئی جس پر مارکیٹ میں گندم 4500 سے 5000 روپے من فروخت ہونے لگی یعنی ایک مہنگائی تو حکومت کرتی ہے اور دوسری آڑھتی۔

اس سبسڈی کے تماشے کے ساتھ عوام کو مزید اذیت دینے کے لیے سستا آٹا، چینی، تیل وغیرہ کے نام پر بھی بدھو بنایا جا رہا ہے۔

لوگ فجر سے رات گئے تک تیز دھوپ، سخت سردی، بارش اور طوفان میں بھی اسٹورز اور ٹرکس کے سامنے قطار لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ ایک وقت کھانے کے لیے اشیائے خورد و نوش حاصل کر سکیں اور جب ان کا مقصد پورا نہیں ہو پاتا تو کبھی صدمے سے اور کبھی مجمعے کی دھکم پیل سے وہ جان سے ہی گزر جاتے ہیں۔

اگرچہ اس کی وجہ صرف حکومت نہیں بلکہ عوام بھی ہے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اگر غلطی سے حکومت ہم پر احسان کرتے ہوئے کوئی چیز سستی یا مفت دینے کا ارادہ کرتی بھی ہے تو اول تو وہ چیز مستحقین تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ محکمے کے ملازمین، افسران اور دکاندار یا امراء اسے حاصل کر کے بازار میں مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں یا پھر عوام اس قدر بدنظمی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ خود بھی مرتی ہے اور دوسروں کو بھی مارتی ہے۔

اس کی چند مثالیں بینکوں اور نادر آفسز کے باہر کھڑے بوڑھے پنشنرز اور کارڈز بنانے والے ہیں جو کہ صبح فجر کے وقت سے بینکوں آفسز کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں جب کہ جانتے ہوتے ہیں کہ بینک اور آفس 9 بجے کھلیں گے اور باقی سستی چیزیں لینے والے۔

اب تک آٹے کے حصول کے لیے چار افراد جان سے گئے ہیں جو لوگ اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہے تھے جان سے گزر کر ہر غم سے چھٹکارا پا گئے۔

میرا حکمرانوں کو مشورہ ہے کہ یا تو آپ ایک ہی بار پاکستان کو امریکہ، چین، بھارت یا کسی بھی ایسے ملک کے ہاتھ بیچ دیں جو آپ کو اس کی اچھی قیمت ادا کرے اور اپنے وطنوں امریکہ، انگلینڈ، دوبئی، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ جا کر آرام سکون کی زندگی گزاریں۔ ہم عوام بیشک ان کے زرخرید غلام ہوں گے مگر مجھے یقین واثق ہے کہ وہ پھر بھی ہمیں اپنا شہری ہونے کا لحاظ کرتے ہوئے بنیادی حقوق ضرور ادا کریں گے۔ یا پھر اس سستے آٹے میں زہر ملا کر دو دو کلو ساری غریب عوام کو دے دیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، اس روز روز کے مرنے سے تو ایک ہی بار مر جانا بہتر ہے، عزت نفس تو آپ ہماری کچل ہی چکے ہیں اب ہمارے سر بھی کچل دیجئے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button