جرائمکالم

دہشت گرد حملے: عوام کا خون اتنا سستا کیوں؟

 

حمیرا علیم 

پاکستان کئی دہائیوں سے دہشتگردی کی زد میں ہے خصوصا کراچی، بلوچستان اور پشاور دہشتگردوں کے ہاٹ فیورٹ سپاٹس ہیں، اس کی کیا وجہ ہے کوئی نہیں جانتا لیکن ایک چیز روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی ملک ہو خواہ وہ افریقہ کا کوئی پسماندہ ملک ہو یا امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک دہشتگرد اور خاص طور پر خود کش حملوں کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ایسا ہی کچھ پاکستان میں بھی ہے۔

ہمارے ہاں جب بھی حملہ ہوتا ہے کسی حساس ادارے کے آفس پر، آرمی ائیر فورس کے بیسز پر، اسکولز ، ہاسپٹلز، بازار میں ہوتا ہے اور ایک بار پھر خود کش حملہ آوروں کا پسندیدہ ترین مقام مساجد اور امام بارگاہیں ہیں جہاں وہ اطمینان سے ایک نمازی کے بھیس میں گھس کر اپنا ٹارگٹ بڑی آسانی سے پورا کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد پولیس اور دیگر ادارے بڑی مستعدی سے سی سی ٹی وی کیمراز کی فوٹیج حاصل کر کے حملہ آور کو لوکیٹ کرتے ہیں پھر اس کا ڈی این اے مل جاتا ہے اور اس کے روابط کا سلسلہ کسی نہ کسی تنظیم سے جا ملتا ہے اور جب تک یہ سارا عمل پورا ہوتا ہے اس وقت تک عوام اس کو بھول بھال کر غم روزگار میں گم ہو جاتے ہیں یا پھر اگلا دھماکہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ جو پولیس، ایف سی ، آرمی اور آئی ایس آئی ان دھماکوں کی پیشگی اطلاع دیتی ہے وہ انہیں روکنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرتی؟ ان کے اپنے آفسز اور لوگوں پر حملے ان کی ناقص کارکردگی کا واضح ثبوت ہے مانا کہ جدید ترین ہتھیاروں اور سیکورٹی نظام کے باوجود سینکڑوں کے مجمعے میں ہر شخص کی جامہ تلاشی ممکن نہیں اور خودکش حملہ آور کی شناخت مشکل ترین کام ہے لیکن کیا یہ ناممکن ہے اگر ایسا ہوتا تو ریڈ زون میں کبھی کوئی دہشتگردی کیوں نہیں ہوتی؟کبھی کسی منسٹر یا سینیٹر پر کوئی خودکش حملہ کیوں نہیں ہوتا؟؟؟

ہمارے ہاں ہر ادارے اور مقام پر سیکیورٹی کا بھرپور انتظام ہوتا ہے مگر جو لوگ اس کام پر مامور ہوتے ہیں ان کو اس کام سے رتی برابر دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ وہ میٹل ڈیٹیکٹر سے گزرنے والے اشخاص کی جیبیں اور پرسز تھپتھپا کر مطمئن ہو جاتے ہیں جبکہ خواتین سیکورٹی پرسنز تو موبائل فون پر اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ وہ بیگ پر ایک نظر ڈال کر جانے کا اشارہ کر دیتی ہیں حالانکہ کینٹس اور دیگر اداروں کے باہر موجود اہلکار مختلف گیجٹس کے ساتھ گاڑیاں بھی چیک کرتے ہیں اور آئی ڈی کارڈز بھی پھر بھی اسلحے سے بھرے پورے پورے ٹرک مختلف مقامات پر تباہی پھیلاتے رہتے ہیں۔

وجہ خواہ سیکورٹی اداروں اور اہلکاروں کی کوتاہی ہو یا دہشتگردوں کی تیاری اور عمدہ پلاننگ نتیجہ صرف اور صرف معصوم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے جن کے گھروں کے واحد کفیل ، بزرگ اور بچے مر جاتے ہیں وہ جیتے جی خود بھی مر جاتے ہیں۔ حکومت کواسلحہ خریدنے اور بیچنے کے لیے سخت قوانین بنانے ہوں گے۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کو مجرموں کے ریکارڈ کا منظم نظام بنانا ہو گا  سرحدوں کی حفاظت کا بندوبست کرنا ہو گا تاکہ کوئی دہشتگرد ہمارے ملک میں گھس کر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ وہ اپنی اور دوسروں کی جان و مال کو بچا سکیں۔

اگر ہر کوئی ملازم اور کرائے دار رکھتے ہوئے ان کے شناختی کارڈز اور دیگر دستاویزات کی جانچ پڑتال کر لے اور قریبی پولیس اسٹیشن پر ان کا اندراج کروائے کسی بھی مشکوک کردار کے مالک شخص کی اطلاع متعلقہ اداروں تک پہنچائے اور اپنے اردگرد سے چوکنا رہے تو امید ہے کہ ان حملوں پر قابو پایا جا سکے گا۔ سیکیورٹی اداروں کو بھی سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کی بجائے ایسے حملوں سے پہلے اتنی ہی مستعدی کے ساتھ عوام کی ویسی ہی حفاظت کرنی چاہیے جیسے وہ کسی منسٹر کی کرتے ہیں کیونکہ ہر انسان کی جان اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ ان منسٹرز کی ہے۔
پاکستانی عوام اپنی حکومت کے لیے کسی بے جان چیز سے بھی گئی گزری ہے کیونکہ جب بھی کوئی دہشتگردی کاحملہ ہوتا ہے حکومت جھوٹی تسلیاں اور چند روپے دے کر سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر لیا جب کہ کسی بھی دوسرے ملک کی حکومت کے لیے اپنا کوئی بھی شہری اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ اس ملک کا سربراہ جب یہ رواج ہمارے ہاں بھی رائج ہو جائے گا تو ہمیں بھی ان حملوں سے نجات مل جائے گی اس دن کے انتظار میں ہم 76 سالوں سے ہیں اور ہر طرح کے مسائل کے باوجود ہم پرامید ہیں دعاگو ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button