محمد فہیم
اتوار کے روز صبح 10 بج کر 50 منٹ پر اچانک سرکاری ٹی وی پر وزیر خزانہ اسحق ڈار سامنے آ گئے؛ اسحق ڈار انتہائی مایوس اور اداس لگ رہے تھے، ان کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ انہیں کسی بات کا غم ہے لیکن غم ہے کس بات کا وہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ بات کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ چار ماہ سے حکومت نے عوام دوستی کا ثبوت دیا اور پٹرول کی قیمت میں ایک پائی اضافہ نہیں کیا۔
ابھی یہ بات جاری ہی تھی کہ ان کو سننے والے، جو تعداد میں انتہائی کم تھے، سمجھ گئے کہ یہ اداسی صرف اسحق ڈار کی نہیں بلکہ کچھ ہی لمحوں میں ملک کے 23 کروڑ عوام کو منتقل ہونے والی اداسی ہے۔
اور پھر وہی ہوا، تقریباً دو منٹ تک حکومت کے عوام پر ہونے والے احسانات جتانے کے بعد اسحق ڈار نے عوام سے قربانی مانگ لی اور قربانی بھی ایسی جو مانگتے ساتھ ہی لے بھی لی گئی۔
ابھی وہ بات کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35، 35 روپے اضافہ کر دیا ہے جبکہ لائٹ ڈیزل اور کیروسین آئل کی قیمت میں 18، 18 روپے کا اضافہ ہو گیا۔
اسحق ڈار ابھی بوجھل دل سے یہ دکھڑا سنا ہی رہے تھے اور وقت 10 بج کر 54 منٹ ہو گیا تھا کہ عوام سے ایک اور قربانی مانگ لی گئی اور وہ یہ تھی کہ ان قیمتوں کا اطلاق ابھی اس بیان کے ختم ہونے کے فوراً بعد ہو جائے گا یعنی صرف 6 منٹ بعد یہ قیمتیں لاگو ہوں گیں اور عوام کے پاس پرانی قیمت پر پٹرول ڈالنے کا موقع بھی نہیں ہو گا۔
اسحق ڈار انتہائی مایوس نظر آئے اور ان کی باڈی لینگوئج بھی انتہائی تکلیف دہ تھی۔ لیکن وہ تکلیف انہوں نے اکیلے نہیں سہی بلکہ ہر شہری کو اس تکلیف کا احساس دلا دیا گیا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں جب پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں، موجودہ حکومت کے آنے کے بعد عوام کو مہنگائی کا تحفہ دینے کا نام تبدیل کر کے سخت اقدامات رکھ دیا گیا ہے اور حکومت مسلسل 10 ماہ سے سخت اقدامات ہی اٹھا رہی ہے جس کا اثر صرف اور صرف غریب پر پڑ رہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے اپنے دور میں پٹرول کی قیمت اڑھائی سو تک پہنچائی تھی، وہ بھی اسی طرح انتہائی اداس چہرے کے ساتھ پٹرول کی قیمت بڑھا دیتے تھے لیکن بعد میں وہ اپنے گھر بیٹھ گئے اور سیاست سیاست کھیلنے لگے۔ اسحق ڈار آئے اور انہوں نے چند روپے کرتے کرتے کچھ کمی کی اور پھر دوبارہ سے اب پٹرول کی قیمت وہیں پہنچا دی جہاں سے چھوٹی تھی۔
پٹرول کی قیمت اور ڈالر کی قدر گرنے کا ذمہ دار موجودہ حکومت 10 ماہ قبل گرائی جانے والی حکومت کو قرار دے رہی ہے، عمران خان کے اقدامات پر مسلسل تنقید کرتے ہوئے یہی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ماحول اس قدر مشکل کر دیا تھا کہ مجبوراً مہنگائی کرنی پڑ رہی ہے لیکن اگر عمران خان اور ان کی ٹیم کو دیکھا جائے تو وہ کہتے تھے کہ نواز شریف حکومت نے اتنے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں کہ انہیں مہنگائی کرنی پڑ رہی ہے۔
مسلم لیگ سے سوال کرو تو کہتے ہیں کہ 2017 میں ہمارے دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، کس نے کہا تھا کہ نواز شریف کو نااہل کر کے باہر کر دو؟ پھر عمران خان کا دور آیا۔ اب جو مہنگائی ہو رہی ہے اس کا سوال پی ٹی آئی سے کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو جوئے شیر بھی لے آئے تھے لیکن ہماری حکومت گرا دی گئی، کس نے کہا تھا کہ عمران خان کو گھر بھیجو؟
اور اب موجودہ حکومت سخت اقدامات (مہنگائی مسلط کرنے والے) لے رہی ہے اور امید ہے کہ کبھی تو ملک میں استحکام آئے گا، پھر ان کو ہٹا دیا جائے گا اور کوئی اور آ کر مزید مہنگائی لائے گا اور کہے گا کہ گزشتہ حکومت کی وجہ سے مہنگائی آئی ہے۔
ملک میں اس مہنگائی کی لہر کی وجہ سے غریب دو وقت کا کھانا تک نہیں کھا سکتے، ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ایک سال قبل 10 کروڑ لوگ تھے لیکن اگر آج سروے کیا جائے تو بلاشبہ یہ تعداد دگنی سے بھی زائد ہو گی کیونکہ صرف اشرافیہ ہی رہ گئی ہے جو غربت کی لکیر سے اوپر ہے باقی سب کی تنخواہ اور آمدن اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی، بس خرچ تین گنا بڑھ گیا ہے۔
یہ تمام جماعتیں حکومت کو ایک گیند کی طرح کلیم اللہ سے سلیم اللہ اور سلیم اللہ سے دوبارہ کلیم اللہ کی طرف بھیج رہی ہیں اور عوام اس مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اصل ذمہ دار کون ہے؟ ہر کوئی دوسرے پر الزام لگاتا اور اپنے دور کو سنہری قرار دیتا ہے، نجانے کون سچا اور کون جھوٹا ہے؟