سیاستکالم

محمود خان: عثمان بزدار سے بھی زیادہ تابعدار

محمد فہیم

آج (ہفتہ کے روز) محمود خان وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے رخصت ہو گئے، انہیں پولیس کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور اس موقع پر ان کے ہمراہ پارٹی رہنماﺅں میں صرف شوکت یوسفزئی تھے۔

منگل کی رات 9 بجے عمران خان کے حکم پر صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا عمل جب شروع ہوا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اتنی تیزی سے خیبر پختونخوا میں تمام معاملات طے پا جائیں گے، پنجاب اسمبلی خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجنے سے تین روز قبل یعنی ہفتہ کی رات تحلیل ہو گئی تھی اور اس کے تین روز بعد منگل کی رات 9 بجے محمود خان نے خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجی جو 11 گھنٹوں کے اندر ہی منظور کر لی گئی۔

سمری کی منظوری بھی انتہائی ڈرامائی انداز میں دی گئی، گورنر خیبر پختونخوا غلام علی پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ اسمبلی توڑنے کے عمل کا حصہ نہیں رہیں گے کیونکہ یہ اسمبلی عوام کے نمائندوں کی ہے اور اس کے قیام پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لہٰذا اسمبلی ٹوٹنے کے عمل کا وہ حصہ نہیں ہوں گے تاہم حقیقت میں سمری کے ان تک پہنچنے کی دیر تھی، رات گئے سمری موصول ہوتے ہی غلام علی نے گورنر سیکرٹریٹ کے سٹاف کو طلب کر لیا اور مشاورت شروع کر دی جس سے یہ امکان بھی پیدا ہو گیا تھا کہ گورنر خیبر پختونخوا رات کو ہی سمری منظور کر لیں تاہم اگلی صبح 9 بج کر 15 منٹ پر غلام علی نے سمری منظور کر لی اور کابینہ سمیت تمام ارکان اسمبلی ”سابق” ہو گئے۔

سمری کی منظوری کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا عمل شروع ہو گیا۔ پنجاب میں بھی اس معاملہ پر ڈیڈ لاک ہے، تین روز تک وزیر اعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہیں ہو سکا جس کے بعد تین روز پارلیمانی کمیٹی کو دیئے گئے اور اس میں بھی اتفاق نہیں ہو سکا اور اب دو روز میں الیکشن کمیشن نے ان مجوزہ ناموں میں سے کسی ایک نام کا قرعہ نکال کر اسے نگران وزیر اعلیٰ بنا دینا ہے۔

پنجاب کی صورتحال خیبر پختونخوا میں بھی بن گئی تھی۔ جس روز اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری منظور ہوئی سابق وزیرا علیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کے درمیان بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ساتھ بیٹھنے سے بھی انکار کر دیا گیا، اسی کشمکش میں دو روز گزر گئے۔

آخری دن تھا جس میں اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلی نے مشاورت کرنی تھی جب سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک میدان میں آ گئے اور مذاکرات رات دیر کو شروع ہوئے جو کچھ ہی دیر میں محمد اعظم خان پر اتفاق کرتے ہوئے ختم کر دیئے گئے۔

محمود خان کا دور انتہائی تیزی سے ختم ہو گیا جس کی توقع شاید ہی کوئی کر رہا تھا۔ جمعرات 12 جنوری کو پنجاب کی تحلیل کا عمل شروع ہوا اور وزیر اعلیٰ پرویز الہی تھے اور آج بھی وہ وزیر اعلیٰ ہیں جبکہ 17 جنوری کو خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا عمل شروع ہوا اور 21 جنوری کو محمود خان سابق ہو گئے۔

اس تمام عمل میں محمود خان انتہائی کمزور پچ پر نطر آئے، ان کی کوئی مرضی نہیں چلی۔ پرویز الہی نے اسمبلی تحلیل کرنے سے لے کر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے تک اپنی تمام شرائط اپنی مرضی سے منوائیں تاہم محمود خان صرف یس سر تک محدود رہے۔

جب عمران خان کا حکم آیا کہ اسمبلی توڑ دو تو محمود خان نے کہا یس سر! جب کہا گیا کہ اپوزیشن پر تنقید کرو برا بھلا کہو تو کہا گیا یس سر! اور جب کہا گیا کہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جاﺅ اور جا کر سپیکر ہاﺅس میں بیٹھ کر اپوزیش لیڈر سے بات کرو تو ان کا جواب تھا یس سر! غرض محمود خان کا یہ ساڑھے چار سالہ دور یس سر سے شروع ہو کر یس سر پر ہی اختتام پذیر ہو گیا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی یس سر کی کوالٹی نے انہیں وزیر اعلیٰ بنایا ورنہ پی ٹی آئی کی صفوں میں اس عہدے کیلئے کئی گنا بہترین افراد موجود تھے لیکن وہ اشاروں پر چلنے والے نہیں تھے اس لئے وہ بھی اس کرسی کیلئے موزوں تھے ہی نہیں جبکہ محمود خان ایک اچھے بچے کی طرح ہر حکم بجا لاتے اور یس سر کی گردان کرتے ساڑھے چار سال نکال گئے۔

پارٹی اور عمران خان کیلئے محمود خان سے بہترین وزیر اعلیٰ کوئی نہیں ہو سکتا تھا اور اگر موازنہ کیا جائے تو محمود خان دراصل عثمان بزدار سے بھی زیادہ تابعدار تھے کیونکہ محمود خان کی تابعداری صرف عمران خان کیلئے نہیں تھی بلکہ پرویز خٹک، افتخار درانی، علی امین گنڈاپور اور اسد قیصر سمیت بیوروکریسی کے سامنے بھی کبھی اپنی بات نہیں کی بلکہ جو کہا گیا من و عن مان لیا۔

محمود خان کی خدمات پی ٹی آئی اور ان شخصیات کیلئے لازوال ہیں تاہم صوبے کے عوام کیلئے انہوں نے کیا کیا؟ شاید اس سوال کا جواب تلاش کرنا انتہائی مشکل ہو!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button