کیا آپ جانتے ہیں ریکوڈک کی مالیت کتنی ہے؟
حمیرا علیم
پہاڑ ایک بڑا پلیٹ فارم ہے جو ایک محدود علاقہ میں اِردگرد کی زمین سے عموماً ایک چوٹی کی شکل میں اُبھرا ہوتا ہے۔ پہاڑ عام طور پر پہاڑی سے بُلند اور دُشوارگزار ہوتا ہے۔ پہاڑوں کے مطالعہ کو علم الجبلیات یعنی پہاڑوں کا علم (orography) کہا جاتا ہے۔
روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو یہ ہلنے لگی جس پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنائے اور اسے ساکن کیا یعنی یہ پہاڑ زمین کے ستون ہیں جن کی وجہ سے یہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑی ہے۔
پاکستان میں مختلف پہاڑی سلسلے ہیں جن میں سے مشہور ترین تین بڑے پہاڑی سلسلوں قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ میں 8000 میٹر سے 6000 میٹر اونچائی کی چوٹیاں موجود ہیں۔
دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 پاکستان میں ہیں جن کی اونچائی 8 ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ کے ٹو 8611 میٹرز پاکستان کی پہلی اور دنیا کی دوسری اونچی ترین چوٹی ہے۔ کے ٹو نامی چوٹی کو ’ہلاکت خیز پہاڑ‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی بلندی تک پہنچنے والا کوئی بھی راستہ آسان نہیں ہے۔
کوہ قراقرم دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، کے ٹو 8,611 میٹر 28,251 فٹ بلند ہے۔ کوہ ہمالیہ پاکستان کی بلند ترین چوٹی نانگاپربت 8,126 میٹر 26,660 فٹ بلند ہے۔ کوہ ہندوکش اس کی بلند ترین چوٹی ترچ میر 7,690 میٹر 25,230 فٹ بلند ہے۔
ہندو راج پاکستان کی شمالی علاقہ جات میں واقع ہے جو کہ کوہ ہندو کش کا حصہ ہے۔
کوہ سفیدکا پہاڑی سلسلہ تورا بورا کی سرحد سے شروع ہو کر افغانستان کے مشرقی سمت سے گزرتا ہوا خیبر کی مغربی سمت میں ختم ہوتا ہے۔ کوہ سلیمان کی بلند ترین چوٹی تخت سلیمان 3,487 میٹر 11,440 فٹ بلند ہے۔ کوہ سفید کی بلند ترین چوٹی سکرم 4,761 میٹر 15,620 فٹ بلند ہے۔
کوہ نمک کا پہاڑی سلسلہ پنجاب میں واقع ہے اس کی بلند ترین چوٹی سکیسر 1,522میٹر 4,993 فیٹ بلندہے۔
مارگلہ پہاڑی پنجاب میں واقع ہے اس کی بلند ترین چوٹی ٹیلا چارون 1,604میٹر 5,262 فیٹبلند ہے۔طوبیٰ کاکڑ کوہ ہندو کش کے جنوبی حصہ میں واقع ہے جو بلوچستان کا حصہ ہے۔
مکران کا پہاڑی سلسلہ جو کہ بلوچستان کے جنوبی نیم صحرائی ساحل سے ہوتا ہوا ایران اور پھر پاکستان کی ساحلی پٹی بحیرۂ عرب تک جاتا ہے ۔ یہ پہاڑی سلسلہ 1,000کلومیٹر لمبا ہے جس کا 750کلو میٹر پاکستان میں ہے۔
راس کوہ سلسلہ چاغی، کیرتھر سلسلہ، یہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ دریائے مولا کے جنوب سے شروع ہوتا ہے جو کہ بلوچستان کے مشرق وسط سے ہوتا ہوا کیپ ماؤنٹ اور پھر کراچی کے بحیرۂ عرب کے ساحل پر ختم ہوتا ہے۔
پاکستانی پہاڑی سلسلے قیمتی پتھروں، دھاتوں، نباتات اور جنگلی حیات سے مالا مال ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ان سلسلوں سے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے انہیں کوڑیوں کے مول بیرونی ممالک کی کمپنیز کو بیچتی رہی ہیں جنہوں نے ہمارے وسائل سے فائدہ اٹھا کر اربوں ڈالر کمائے اور ہمیں اس منافع میں سے رتی برابر حصہ دیا گیا۔ اگر ہم ان پہاڑوں سے نکلنے والے نمک، پتھروں اور کوئلے کو ہی برآمد کرنا شروع کر دیں تو پاکستان کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
تھرکول پروجیکٹ کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی تھی۔ 750 ملین ڈالرز خرچ کر کے تھر کا انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا۔ جیالوجیکل سروے کے مطابق تھر میں 175 بلین ٹن کوئلہ موجود ہے، تھرکول کے کل 13 بلاکس ہیں۔ تھر کول سے بجلی کی پیداواری قیمت 17 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے جبکہ ایل این جی سے بجلی کی پیداواری قیمت 24 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے اور درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداواری قیمت 37 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے۔ تھر کول سے کھاد کی پیداوار کے لیے جب سائن گیس (Syn gas) تیار ہو گی تو 3 بلین ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ ہو گا۔ تھر کا کوئلہ 70 میٹرک ٹن اگر فی سال برآمد کیا جائے تو زرمبادلہ کی مد میں 4 بلین ڈالر کا فائدہ ہو گا۔
اس پروجیکٹ کے لیے تھر کے دشوار گزار علاقے میں پورا شہر بسایا گیا، اسٹاف کے لیے رہائشی کالونیز بنائی گئیں۔مائننگ اور پاور پلانٹ کے لیے قیمتی مشنیری منگوائی گئی مگر دیگر پروجیکٹس کی طرح یہ کام بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور مشنیری زنگ آلود ہو کر تباہ ہو گئی۔ اس سال وزیراعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کا افتتاح کیا ہے امید ہے یہ پلانٹ جلد ہی کام کا آغاز کر دے گا۔
ریکوڈک کی مالیت اس وقت ایک ہزار ارب امریکی ڈالر ہے اور یہ چھ سو کلومیٹر کی حدود اربع اور تین سو سال کی پیداواری استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے اور بعض رپورٹس کے مطابق ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔
ریکوڈک کے قریب ہی سیندک کا مقام ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ‘شو کیس’ کہتے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں جن پر آج تک مکمل انداز میں کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ان ذخائر کی تلاش کے لیے 28 برس قبل ریکوڈک منصوبے کا آغاز کیا لیکن اس سے ملک کو کسی فائدے کے بجائے نہ صرف چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا بلکہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات کو نمٹانے کے لیے ثالثی کے دو بین الاقوامی اداروں میں مقدمہ بازی پر خطیر اخراجات بھی ہوئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران اور حکومتی ادارے اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر عوام اور ملک کی فلاح کے لیے کام کریں اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔