زرعی زمینوں پر سرکاری تعمیرات
محمد بلال یاسر
زراعت سے وابستہ ممالک کی معیشت کا دارو مدار اس کی زرعی زمینوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے حیثیت سے زر خیز زمینوں کے قیمتی قدرتی خزانوں سے مالا مال مملکت ہے تاہم بد قسمتی سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتی آبادیوں نے جہاں شہریوں کے لئے مسائل پیدا کر دیے ہیں تو دوسری جانب دیہات کی زمینوں پر کھیتی باڑی نہ ہونے سے زرعی اجناس کی کمیابی اور سماجی مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے شمال مشرق میں واقع خوبصورت علاقہ ضلع باجوڑ ہے جو کہ چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گرا ہوا ہے۔ باجوڑ میں صرف 40 فیصد زرعی اراضی ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ ایسے میں حکومت قبائلی ضلع باجوڑ تحصیل سلارزئی علاقہ خرکنو میں حکومت عوام کی زرعی زمینوں پر جوڈیشل کمپلیکس، جیل اور پولیس لائنز بنانا چاہتی ہے جس کے خلاف اراضی مالکان اور کسان سراپا احتجاج ہیں۔ خرکنو تحصیل سلارزئی کے جنوب میں واقع ایک زرعی علاقہ ہے یہاں پر زیادہ تر لوگ سبزیاں کاشت کرتے ہیں اس علاقے میں سبزیوں کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ ان فصلوں میں آلو ٹماٹر، گندم، جو ، مکئی، گوبھی، شملہ مرچ، پیاز، سورج مکھی اور گزشتہ چند سالوں سے زعفران بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے باجوڑ کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس انہیں بار بار وارننگ دے رہی ہے کہ وہ اپنی اراضی خال کردیں تاکہ ہم اس پر سرکاری کی تعمیرات کا آغاز کریں۔ ایک مقامی شخص میاں سراج کا کہنا ہے کہ یہ اراضی ہماری آباؤ اجداد کی جاگیر ہے۔ اب ضلعی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ انہیں ان تعمیرات کیلئے 750 کنال زمین درکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان زرعی زمینوں کے قریب بہت ساری بنجر اراضی ہے حکومت کو چاہیے کہ ان بنجر زمینوں پر تعمیرات کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ حکومت زرعی اراضیوں پر سرکاری تعمیرات سے گریز کریں۔
باجوڑ اور دیگر قبائلی علاقوں میں 2018 کے فاٹا انضمام کے بعد سے یہاں سرکاری تعمیرات کا آغاز ہوا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی عدالت اور پولیس کا دائرہ کا توسیع کرچکا ہے جن کیلئے سرکاری تعمیرات کی اشد ضرورت ہے۔
15 فروری 2022 کو پشاور ہائی کورٹ نے ضلع صوابی کے ایک رہائشی کے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا تھا کہ حکومت عوام کے زرعی زمینوں پر تعمیرات کے بجائے بنجر زمینوں پر تعمیرات بنائیں جب عوام انہیں زرعی زمینوں پر تعمیرات کی اجازت نہ دیتی ہو۔
اس گاؤں کے ایک رہائشی میاں عمران کا کہنا ہے کہ ہم اس مقام پر کوئی گزشتہ 200 سال سے آباد ہیں۔ ہماری تمام اراضی زرعی ہے ہمارے ساتھ کوئی 50 کسان ہیں کوئی اس میں دیہاڑی کرتا ہے کسی کی زمین ہے تو کوئی اس میں اجارہ کرتا ہے۔ اب بھی ان زمینوں پر سبزیاں موجود ہیں، ہم اس مسئلے کے حل کیلئے عدالت کا دروازہ کھکٹکائیں گے کیونکہ ضلعی انتظامیہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔
اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈی سی باجوڑ نے خاموشی اختیار کی اور کوئی رائے نہیں دی۔
اس سب ڈویژن سے منتخب ناظم اعلیٰ حاجی سید بادشاہ نے بتایا کہ وہ کسی صورت اس فیصلے کی حمایت نہیں کریں گے اور کسی صورت انتظامیہ کو عوام کی زرعی اراضیوں پر تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ ہمارے علاقے میں بنجر زمینیں موجود ہیں حکومت اگر سرکاری تعمیرات کرنا چاہتی ہیں تو ان زمینوں پر کریں عوام کی زرعی زمین تباہ نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے وہ اس مسئلے کے بہتر حل کیلئے کوششیں جاری رکھیں گے۔
زراعت کے لئے پیداواری سہولت کی زمین اور ان سے متعلقہ معاون سہولیات اور زرعی سہولیات کے لئے زر خیز زمینوں پر ہاؤ سنگ اسکیموں کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ ماحولیات کو نقصانات نہ پہنچے۔ زرعی زمین کی خصوصیات کے مطابق، معیاری انتظامات حکومت کی ترجیحات ہونی چاہیے، پیداوار کی سہولت کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی ورنہ ہمیں مستقبل میں بہت سارے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔