سیاستکالم

ایک سیاسی بیان اور جمہوریت کا حسن

ڈاکٹر ہمایون ہما

ہم نہ سیاست کے ماہر ہیں اور نہ اس موضوع میں کوئی دلچسپی ہے۔ چونکہ ملک میں سیاسی بیان بازیوں کا طومار بندھا رہتا ہے جس سے ایک عام شہری کی حیثیت سے ہم پر بھی اثر پڑتا ہے چنانچہ بہ امر مجبوری کچھ کہنا ضروری ہو جاتا ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی کارروائی آج کے قومی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے لیکن اس اجلاس کے بعد جو بیانات سامنے آئے یوں لگتا ہے وہ اپوزیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔ باتیں اس میں بہت ہیں مگر ہم پر پی ڈی ایم کے سربراہ کی گفتگو کے خاص نقطے نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ہر دور میں ان کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے موجودہ اقتدار میں بھی ان کی پارٹی کو خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کی گورنرشپ ان کو ملی اور مرکز میں مواصلات کی اہم وزارت بھی ان کے حصے میں آئی مگر اتنی کچھ مراعات کے حصول کے بعد بھی پی ڈی ایم کے سربراہ کا بیان قابل توجہ ہے اور ذومعنویت کا حامل بھی، ہمارے اس بزرگ رہنماء کے بیانات بالعموم پہلو دار ہوتے ہیں اور حالات کے عین مطابق!

پشتو میں ایک مثل ہے ”کلہ د باران د ڈڈے کلہ د سیلئی لہ مخہ” مطلب اس کا کچھ یوں بنتا ہے کہ کبھی بارش کی جانب سے بات ہوتی ہے تو کبھی ہواؤں کا رخ دیکھ کر بیان جاری کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اس ڈانواڈول قسم کے موقف کچھ زیادہ قابل اعتراض نہیں ہوتے بلکہ ہمارے کم و بیش سب سیاستدان اس کو جمہوریت کا حسن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی اور قطعی نہیں ہوتی۔

گھڑا ہوا بیان ہر سیاستدان کی زبان پر ہوتا ہے کہ ہم قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں بات کرتے ہیں کر لو جو کرنا ہے۔ واقعی کسی وقت بھی اپنے کسی سیاسی موقف سے قلابازی ہمارے ہر سیاستدان کا وطیرہ ہوتا ہے؛ یہ لوگ قومی مفاد میں کسی ایک سیاسی جماعت کے مفاد کے لئے کوئی بھی موقف اختیار کر لیتے ہیں اور کل کلاں دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے بعد پرانی جماعت میں اپنی موجودگی کو بھی حق بجانب ثابت کرنے سے باز نہیں آتے اور نئی جماعت میں شامل ہونے کا جواز بھی شدومد سے بیان کرتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے منشور میں کافی فرق ہوتا ہے؛ اگر ایک اسلامی قوانین کے نفاذ کی حامی ہوتی ہے تو دوسری طبقاتی فرق کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتی ہے۔ ملکی سیاست کے متعلق میرا ایک عمومی تاثر ہے، اگر کوئی اس سے مختلف سمجھتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد اے پی سی کی جانب سے جو خبر شہ سرخی بن کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امن و امان بحال کیا جائے ورنہ سخت فیصلے کریں گے۔ میں اس نکتے پر سوچ رہا ہوں کہ یہ بیان بی ڈی ایم کے سربراہ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے یا پھر اس پارٹی کے سربراہ کی طرف سے جو خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، ان کے بیانات بھی دلچسپی کی حد تک ہیں۔ انہوں نے اسمبلیوں کی تحلیل کی کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

پنجاب کا تو ہمیں علم نہیں مگر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، دو ماہ پہلے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن تک کے لالے پڑتے دکھائی دے رہے تھے، صورت حال واضح نہیں تھی اور متذکرہ مدوں میں ادائیگی مہینے کی پانچ تاریخ کے بعد کی گئی۔ صوبائی وزیر خزانہ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وفاق کی جانب سے فنڈز کی فراہمی میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

اے پی سی میں پی ڈی ایم کے سربراہ کا جو بیان آج کے اخبارات میں آیا ہے اس سے پشتونخوا کے وزیر خزانہ کے اس بیان کی تصدیق ہو گئی کہ وفاق صوبوں کو فنڈز فراہم کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہا ہے۔ اخبارات میں چھپی خبر کے مطابق انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ روزانہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے والے وزیر اعلی کو فنڈز کیسے جاری کیے جائیں یعنی نہیں کیے جائیں گے۔

حیرت ہمیں اس بات پر ہے کہ پی ڈی ایم کے نمائندے صوبے کے گورنر ہیں، وہ ہیلی کاپٹر کے استعمال کے امتیازی قانون جیسے اہم مسئلے کے چکر میں پڑے ہیں اور پی ڈی ایم کے سربراہ کا سیاسی مرکز پختونخوا ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ وفاق کے فنڈز نہ تو وزیراعظم کے ذاتی اکاؤنٹ سے جاری ہوتے ہیں اور نہ وزیراعلی کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع ہوتے ہیں، یہ صوبے کا حصہ ہوتا ہے مرکزی بجٹ میں جس کی منظوری دی جاتی ہے۔ اس فنڈ سے صوبے کے ترقیاتی کاموں اور صوبائی ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی ہوتی ہے۔

محترم کا یہ بیان پختونخوا کے عوام کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے اور غیرذمہ دارانہ بھی! محترم وزیر اعظم کو اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے لیکن وہ نہیں لے سکتے۔

Dr. Muhammad Humayun Huma
ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پی ٹی وی کے سنہری دور کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ ہیں، وہ ایک شاعر، ادیب، کالم نگار اور سب سے بڑھ کر ایک استاد ہیں۔ قلم و کتاب سے ان کا رشتہ کافی پرانا ہے اور آج کل دل کا غبار و بھڑاس نکالنے کیلئے ان سطور کا سہارا لیتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button