لائف سٹائل

تانگے کی سواری معدوم، کوچوانوں نے رکشے لے لئے

شاہین آفریدی

کسی زمانے میں خیبر سے کراچی تک تانگے کی سواری عام تھی لیکن 21ویں صدی کے اس جدید دور میں تانگے کی سواری بہت منفرد اور نایاب ہے۔ یہ روایت اب پشاور کے نواحی علاقوں میں محفوظ ہے۔

20ویں صدی کی یہ شاہی سواری اب بھی پشاور میں کہیں کہیں استعمال ہوتی ہے۔ کوچوانوں کا کہنا ہے کہ تانگے کی سواری کم ہو رہی ہے اور بہت کم لوگ اسے سواری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

85 سالہ عبدالعلی خان گزشتہ 20 سالوں سے پشاور چڑیا گھر سے سواریوں کو سپن جماعت تک لے جا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اب بہت کم لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔

عبدالعلی خان نے بتایا کہ "یہاں کچھ ایسے تانگے موجود ہیں جو صرف شوق کی خاطر سڑکوں پر گھوم رہے ہیں لیکن میں مجبوری کی خاطر اس عمر میں بھی سواری اٹھاتا ہوں کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں کام کے علاوہ زندگی دشوار ہے۔”

اگرچہ پشاور میں متوسط ​​طبقے کے لوگ تانگے کو سواری کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن دوسری طرف برطانوی شاہی خاندان آج بھی خصوصی تقریبات میں تانگے کو استعمال کرتا ہے۔

اسی طرح پشاور کے غلام علی بھی اپنے گھوڑے کو سواری کے لیے نہیں بلکہ شوق کے طور پر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تانگے کے کلچر کو زندہ رکھنے کے لیے ہر شام پشاور کی سڑکوں پر اکیلے سواری کرتا ہے۔

غلام علی کہتے ہیں کہ "میں اس جدید دور میں آج بھی غمی خوشی کے لیے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتا ہوں، مجھے اب بھی یاد ہے جب ہم اپنے رشتہ داروں کے ہاں مردان تک تانگے پر جاتے تھے لیکن میں آج بھی ایسے ہی کرتا ہوں، یہ تانگہ میرے ہمسفر جیسا ہے اور میں تانگے کو بطور سواری ہرگز قبول نہیں کرتا۔”

کوچوان کہتے ہیں کہ ایک گھوڑا روزانہ 800 سے 1000 روپے تک کھاتا ہے؛ محمد رفیق اپنے والد غلام علی کے واحد گھوڑے کو پالنے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے ہی گھوڑوں سے بے پناہ لگاؤ ​​ہے اور وہ انہیں پالتے ہیں۔

محمد رفیق نے بتایا کہ "جب یہ گھوڑا زیادہ گھومتا ہے تب ہم اس کو دودھ پلاتے ہیں یا اکثر اوقات دودھ میں دال اور چنا ملا کر کھلاتے ہیں جس سے ہمارے گھوڑے کو بہت طاقت ملتی ہے، اس کے علاوہ ہم دیسی گھی میں مخصوص مصالحے ملا کر بھی کھانے کے طور پر دیتے ہیں جس کے بعد گھوڑا کئی میل تک آسانی سے سفر کر سکتا ہے۔”

پشاور میں کسی زمانے میں شادیوں کے موقع پر دلہنوں کے لیے تانگے کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن جدید ٹیکنالوجی اور گاڑیوں نے اس روایت کو ختم کر دیا ہے۔ کوچوانوں کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل پشاور میں سینکڑوں تانگے ہوا کرتے تھے مگر اب صرف چار رہ گئے ہیں۔ کوچوانوں کے مطابق تانگوں کی جگہ رکشوں نے لے لی۔

اسحاق خان نے 20 سال سے زائد عرصے سے تانگہ پال رکھا ہے لیکن اب وہ رکشہ چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 10 سال قبل یہاں 200 سے زائد تانگے ہوتے تھے لیکن اب اکثر لوگوں نے یہ پیشہ ترک کر دیا ہے۔

اسحاق خان نے بتایا "جب میں تانگہ چلاتا تھا تو اس وقت 100 کے قریب تانگے ہوا کرتے تھے لیکن سواریاں نا ہونے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ پانچ چھ رہ گئے یہی وجہ ہے کہ میرے سمیت باقی سارے کوچوانوں نے رکشے لے لیے۔”

کوچوانوں کا کہنا ہے کہ تانگہ غریب لوگوں کی سواری ہے لیکن وہ ٹریفک قوانین کی وجہ سے زیادہ تر سڑکوں پر سفر نہیں کر سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس قانون میں آسانی لائی جائے تاکہ نہ صرف تانگے کے روزگار میں اضافہ ہو بلکہ اس روایتی سواری کو بھی محفوظ رکھا جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button