‘بچی’ کے چکر نے کرئیر تباہ، دنیا میں رسوا کر دیا
حمیرا علیم
فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک نوجوان یوکے کی ایک بلڈنگ میں کھڑا ایک برٹش کپل کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ ویڈیو ہم سب مسلمانوں خصوصاً ان بچوں کے لیے چشم کشا ہے جو کہ مستقبل میں بیرون ملک حصول تعلیم کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ اس نوجوان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ گیا تھا۔ اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے بیشتر نوجوانوں کی طرح شاید یہ سوچ کر گیا تھا کہ وہاں کی سب خواتین بدکردار ہوتی ہیں اور برہنہ حالت میں سڑکوں پر اس کی منتظر ہوں گی کہ جونہی وہ ایئرپورٹ سے نکلے تو اس کی ہوس پوری کر سکیں۔
چنانچہ اس لڑکے نے پڑھائی پر تو کوئی خاص توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ چھ ماہ سے وہاں مقیم ہونے اور یونیورسٹی جانے کے باوجود وہ چند جملے انگلش کے نہ تو سمجھ پا رہا تھا نہ ہی بول پا رہا تھا لیکن تین سو ٹین ایج لڑکیوں کو اس نے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے کا کارخیر اولین فرصت میں سر انجام دیا کہ چلو تین چار بھی پھنس گئیں تو عیش ہو جائے گی۔ اور بدقسمتی سے چار پانچ لڑکیوں نے اس کی ریکوئسٹ قبول بھی کر لی۔ بدقسمتی سے اس لیے کہہ رہی ہوں کہ جو کچھ اس لڑکے نے سوچا تھا ہوا اس کے برعکس!
جب ان بچیوں نے اس سے بات چیت شروع کی تو اس لڑکے نے زیادہ دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور آغاز گفتگو ہی ان کی نیوڈ پکچرز مانگ کر کیا۔ اور اپنی وجاہت اور مردانگی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اپنی بھی نیوڈ پکچرز انہیں بھیج دیں۔ اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اور اس ملاقات کا ‘ایجنڈا’ بھی طے کر لیا۔ اس دوران جو بات اس لڑکے کو سمجھ نہیں آئی وہ یہ تھی کہ مغربی بچوں کو تو سکول میں آٹھ نو سال کی عمر میں سیکس ایجوکیشن کے نام پر سب کچھ پڑھا اور دکھا دیا جاتا ہے اور اگر 10 سال کا بچہ اور 13 سال کی بچی ایک ناجائز بچے کو پیدا کرنا چاہیں تو والدین، سکول یا حکومت کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں ناجائز تعلقات پر کوئی قدغن نہیں۔
جبکہ ہمارا مذہب، معاشرہ، خاندان اور اقدار ایسے کسی بھی تعلق کی نہ تو اجازت دیتی ہیں نہ ہی اسے مناسب سمجھتی ہیں۔ چنانچہ یہ صاحب شدید برفباری میں ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ان پانچ بچیوں میں سے ایک سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ جو سہانے سپنے اور آرزوئیں لے کر یہ اس کی بلڈنگ تک پہنچے تھے ان پر اس وقت اوس پڑ گئی جب اس لڑکی کے والدین نے اس لڑکے کو لڑکی تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑ لیا۔
شاید وہ اپنی بچی کے سوشل میڈیا ہر چیک رکھتے ہوں گے اور ان کی گفتگو کو پڑھ رہے تھے مگر خاموش رہے تاکہ اس لڑکے کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکیں۔ چنانچہ جب یہ لڑکا اس کے گھر کے باہر پہنچا تو انہوں نے اس پر دھاوا بول دیا۔ اب والدین اس لڑکے سے سوال پر سوال کر رہے تھے اور یہ ہر جرم سے انکاری تھا۔ آخر انہوں نے اسے پولیس بلانے کی دھمکی دی جس پر اس نے ان کی منتیں شروع کر دیں اور معافی مانگنے لگا حتی کہ رونے لگا۔ مگر اس بچی کے والدین ٹس سے مس نہیں ہوئے اور اس لڑکے کو بتایا کہ کسی نابالغ بچے سے ایسی گفتگو بھی ہراسگی کے زمرے میں آتی ہے اور ایسے شخص کو پیڈوفائل کہا جاتا ہے۔ اس جرم کے لیے تو وہ اسے جیل بھیجیں گے ہی۔
یہ سن کر اس لڑکے کے ہوش و حواس جاتے رہے اس نے روتے ہوئے انہیں بتایا کہ اس کے والدین نے بڑی مشکل سے اسے پڑھنے کے لیے بھیجا ہے اور اگر انہوں نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا تو اس کی زندگی تباہ ہو جائے گی اس لیے وہ اس پر رحم کریں اور اسے جانے دیں۔ اور وہ سب کچھ کرنے کے لیے راضی ہے بس اسے چھوڑ دیا جائے وہ آئندہ ایسی غلطی دہرائے گا بھی نہیں۔
مگر جواباً انہوں نے اس کو کرارا سا جواب دیا جو تلخ مگر حقیقت پر مبنی تھا کہ اگر تمہیں والدین کا اتنا ہی احساس تھا تو انہوں نے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ کرتے نہ کہ یہ، ان کے پیسے ضائع کرنے اور اپنی زندگی کی تباہی کے تم خود ذمہ دار ہو ہم نہیں۔ اور اس کے جھوٹوں پر تپ کر اس بچی کے والدین نے پولیس کو بلا لیا اور وہ اسے گرفتار کر کے لے گئے۔
ہمارے ہاں ایک عام کانسپٹ ہے کہ لڑکے جو کچھ بھی کر لیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن لڑکیوں کو ہر لحاظ سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ وہ گھر کی عزت ہوتی ہیں۔ اگر عزت کا معیار کردار کی پختگی ہے اور بے عزتی کا معیار بدکرداری ہے تو قرآن میں اللہ تعالی کا فرمان تو مردوزن دونوں کے لیے ہے۔
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔” (الحجرات 13)
اگر ہم اپنے بیٹوں کو بھی اپنی عصمت کی حفاظت کا درس دیں اور انہیں قرآن پاک کی تعلیم دیں تو خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے اپنے خالہ زاد بھائی پچھلے پچاس سال سے برمنگھم میں رہ رہے ہیں، جائے نماز ان کی کار میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور ان کی ماتحتوں کا کہنا ہے کہ آج تک انہوں نے کسی لڑکی سے ہاتھ تک نہیں ملایا۔ میرا بھائی 25 سال کی عمر میں فرانس گیا تھا الحمدللہ نہ تو کسی لڑکی کے چکر میں پڑا نہ ہی آج تک کسی ڈرگ یا الکحل کو ہاتھ لگایا۔ ان کے علاوہ بھی ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جہاں مرد اللہ تعالٰی کے احکام کے تابع زندگی گزارتے ہیں اور اپنے مرد ہونے کا غلط استعمال نہیں کرتے۔
مگر افسوس ہم پاکستانی اپنے بیٹوں کو ایسے پروان چڑھانے ہیں جیسے کہ وہ ہر قانون، اخلاق اور حکم الٰہی سے ماوراء ہیں۔ انہیں عورت کی عزت سکھاتے ہی نہیں، اگر ایسا کوئی جرم ان سے سرزد ہو جائے تو بجائے انہیں سمجھانے کے ان کی حمایت یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ "یہ تو لڑکا ہے اس لڑکی کو سوچنا چاہیے تھا۔ اگر لڑکی نہ چاہے تو کوئی مرد اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں کر سکتا۔”
ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ باعزت لڑکے ہی ان بدکردار لڑکیوں کو ہر حیلے بہانے سے اپنے جال میں پھنساتے ہیں، اگر کوئی لڑکی ان کے جال میں پھنسنے پر تیار نہ ہو اس پر تیزاب پھینک دیتے ہیں، اسے سرعام گولیاں مار دیتے ہیں، اسے اغواء کر کے عصمت دری کر کے قتل کر کے اس کی لاش کسی ویران جگہ پر پھینک دیتے ہیں۔
خدارا! اپنے بچوں کو اللہ تعالٰی سے جوڑئیے، انہیں احکام الٰہی سے روشناس کیجئے تاکہ آپ رہیں نہ رہیں ان کی دنیا و عاقبت محفوظ رہے۔ ان کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے اور روز قیامت آپ اس کے لیے جوابدہ ہوں گے۔ آپ کے بچوں کے گناہوں پر آپ سے سوال ہو گا اس لیے انہیں بتائیے کہ پاکستان ہو یا انگلینڈ اپنی اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھیے۔