لائف سٹائلکالم

کاش ڈیم بنے ہوتے، سیلاب آتا منہ کی کھاتا!

ارم رحمٰن

کاش کا لفظ اتنا دردناک اور دلگیر ہے کہ اس کے پس منظر کو دیکھا جائے تو دکھ اور درد کی طویل داستان نظر آتی ہے؛
کاش! ڈیم بنے ہوتے، تو مون سون کی بارشوں اور گلیشیئر کا پانی ان ڈیمز میں جاتا اور خشک سالی کے سںبب بنجر کھیت سیراب ہو جاتے۔

کاش! تجاوزات سے پرہیز کیا ہوتا تو پانی کی طغیانی سے خوبصورت عمارات خس و خاشک کی طرح نہ بہتیں۔

کاش! گندے نالوں پر رہائشی سکیم نہ بنائی گئی ہوتیں تو سیلاب کے سیل رواں کے نکاس میں آسانی ہوتی۔

کاش! لاکھوں قیمتی درخت نہ کاٹے گئے ہوتے تو اتنا شدید سیلاب نہ آتا۔

کاش! حکمرانوں نے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے بیرون ممالک میں جائیدادیں نہ خریدی ہوتیں۔ کاش! ملک میں اتنی کرپشن نہ ہوتی۔ کاش! سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔

کاش! ریاست میں انصاف کابول بالا ہوتا۔۔ کاش! کاش! کاش۔۔۔!

ایسے نہ جانے اور کتنے کاش ہیں جن کا سوچ کر صرف ملال ہی ہوتا ہے۔ زندگی میں کاش کبھی ہی شاید کوئی خوشگوار واقعہ کی نشاندہی کرتا ہو گا، اکثر بیشتر تو "کاش” ہمیشہ ایک المناک داستان ہی پیش کرتا ہے۔ آج کا کاش ڈیم کا بروقت نہ بننے کا رونا رو رہا ہے۔

2022 کے شدید سیلاب میں قدرت کے علاوہ نااہل حکمران اور جاہل عوام کا بھی برابر کا ہاتھ ہے، مذکورہ بالا جتنے "کاش” بیان کیے ہیں، سچ بتائیے کہ وہ سب قدرت کی طرف سے ہیں یا انسانی کم عقلی اور غفلت کا شاہکار، سیدھی سی بات ہے "شامت اعمال!”

لیکن مزید دکھ اس بات کا ہے کہ اتنے سنگین اور دردناک حالات دیکھ کر بھی پاکستانی حکمرانوں نے کوئی اثر نہیں لیا کیونکہ ان کا اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے؟ ایک فلائٹ کی مار ہے، ابھی پکڑی یہ جا وہ جا!

کسی بھی دولتمند عقلمند کا پاکستان میں کوئی سرمایہ نہیں، یہاں صرف وہ رہتے ہیں جن کو باہر جانا نصیب نہیں ہو سکا، الا ماشاءاللہ معدودے چند کے، جو محب وطن ہیں اور پرلطف بات، جنھیں وطن عزیز سے شدید محبت ہے ان کے پاس اتنا سرمایہ ہے بھی نہیں کہ انھیں سوئس اکاؤنٹ میں جمع کروانا پڑے یا نیب سے چھپانا پڑے۔

آج کا مسئلہ جو سر اٹھا رہا ہے وہ ہے "سیلاب متاثرین کی بحالی”؛ رہائشی، معاشی اور جسمانی صحت کی بحالی، علاج معالجے کی فراہمی اور مریضوں کی مناسب دیکھ بھال، ابھی تک سیلاب زدگان کو مکمل سکون نصیب نہیں ہوا۔

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اتنی شدید تھیں کہ ساری دنیا نے پاکستانی عوام سے اظہار ہمدردی کیا۔ ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی تک بھاگی چلی آئیں، اقوام متحدہ کے نمائندے آن پہنچے اور جس جس کو موقع ملا دوڑا چلا آیا، امدادی سامان لے کر جہاز کے جہاز اترنے لگے، مالی امداد کا ڈھیر لگ گیا، سوال یہ ہے کہ وہ سب کہاں گیا؟

کیا امداد کافی نہیں تھی کہ بے چارے متاثرین کو سر چھپانے کی فوری جگہ بنا کر دی جا سکتی؟ کیا وہ سامان اتنا نہیں تھا کہ متاثرین سیلاب کا علاج ممکن ہو سکتا؟ کیا ٹینٹ، دیگر اشیاء، کپڑے راشن سب انتہائی ناکافی تھا؟ امدادی کیمپ، رینجرز اور ریسکیو ٹیمیں اور دوسری فاؤنڈیشنز سب کیا کرتے رہے؟

سیلاب کے بعد گندے غلیظ پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا؛ مردہ انسانوں اور جانور کی تعفن زدہ لاشیں گندے پانی کو ہی زہریلا کرتی رہیں، ان میں ہی غلاظت انسانی اور حیوانی فضلہ بہتا رہا۔ خشکی کا نام و نشان نہیں تھا کہ کہاں قدم رکھیں، نماز پڑھنے کے لیے تک کوئی خشک جگہ موجود نہ تھی سب سے بڑھ کر کچھ عرصے تک مرحومین کی لاشیں دفنانے کی جگہ بھی نہیں مل سکی، سب تہس نہس ہو کر رہ گیا۔

ظلم زیادتی، چوری اور امدادی سامان کے ٹرکوں پر حملے اور اس تکلیف دہ موقع پر معصوم بچوں اور بچیوں کے اغوا اور ہراسانی اور جنسی زیادتی تک کے واقعات نے بھی دل دہلا کے رکھ دیا۔

اب یہ سوال بھی پرانا ہوا لیکن ابھی تک سیلاب کے تعفن زدہ پانی سے نجات حاصل نہیں کی جا سکی اور ان علاقوں میں اس قدر وبائیں پھوٹ پڑی ہیں کہ ان کے لیے ادویات کا سٹاک بھی میسر نہیں۔ پیٹ، جلد اور آنکھوں کے امراض، ڈائیریا، قے، کھانسی اور پھیپھڑوں کے مسئلے، حاملہ عورتوں کو صفائی، علاج اور خوراک کی قلت کا شدید سامنا اور سب سے بڑھ کر ملیریا اور ڈینگی نے سر اٹھا لیا۔ مصیبت در مصیبت، لیکن حکومت بے بس اور غافل، اگست میں سیلاب اترا اور دسمبر تک متاثرین بے آسرا و بے مددگار، آخر کیوں؟

جس وقت بیرون ممالک سے امداد کے ساتھ پاکستانی بہنوں اور بھائیوں نے بھی اپنے پاکستانی ساتھیوں کے لیے دل کھول کر عطیات دیے وہ کہاں گئے؟ وہ خطیر رقم کہاں خرچ کی گئی؟ جلسے جلوس اور ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا اور ہتک آمیز بیانات کی تشہیر میں خرچ کر دی گئی یا سارے پاکستان کو کنٹینرز کے ذریعے قید رکھنے میں؟ خدارا! کوئی بتائے وہ ساری امدادی رقم کہاں گئی؟

ایک حکمران کو ذرا سی تکلیف ہوئی تو وہ لندن علاج کرنے جا پہنچا، اس پر طرہ یہ کہ وہ موصوف خود کو پاکستانی کہتے ہی نہیں بلکہ عوام کی خیرخواہی کا دعوی بھی جوش و خروش سے کرتے ہیں۔

آئیے ایک اور کاش دیکھتے ہیں۔ اے کاش کہ پاکستان کے سارے امراء وزراء اپنی جائیدادیں اور سرمایہ پاکستان کی ترقی اور مشکل وقت کے لیے خرچ کرتے تو شاید پاکستان کو بیرون ملک امداد کی ہزیمت اٹھانی ہی نہ پڑتی!

چلیے یہ بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ "الخدمت فاؤنڈیشن نامی ادارہ سیلاب زدگان کے لیے 15 کروڑ کی لاگت سے 1500 سو گھر تعمیر کر کے دے گا؛ 4، 5 دن پہلے فیتہ کٹا، تالیاں بجیں، چائے کے اہتمام کا پتہ نہیں لیکن تشہیر بہت ہوئی، 5 دن پہلے کام شروع ہوا ہے۔ خود سوچیں اس قدر دیر سے کام شروع کیا جو اب تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا، شدید سرد موسم میں ان بے چاروں ہر کیا بیتتی ہو گی؟

سب سے بڑھ کر کیا یہ حکومتی ادارہ ہے؟ کیا حکومت ساڑھے تین کروڑ متاثرین اور لاکھوں بے گھر لوگوں کو 1500 گھروں میں منتقل کر سکے گی؟ اگر یہ ایک این جی او ٹائپ ادارہ ہے تو پھر حکومت کہاں ہے؟ فنڈز، امداد، خیرات کہاں ہے جس کے لیے سب حکمران نت نئے طریقوں سے ساری دنیا کی ہمدردی سمیٹ رہے تھے اور اربوں روپے بٹور لیے؟

لیکن ڈینگی اور ملیریا کی شدت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سیلاب زدگان ابھی بھی پانی کے سیلاب سے نکل کر بیماریوں کے سیلاب میں گھر چکے ہیں۔ کاش! پھر کاش کہ پاکستان کے لاکھوں معصوم بچوں کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا!

کاش!

معصوم بچوں کو جسمانی مہلک بیماریوں سے نجات دلائی جا سکتی، یونیسف کے ادارے نے احساس دلایا ہے کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کی صحت کو بہت سے خطرے لاحق ہیں مزید برآں کم عمر، کمسن بچوں کی صحت اور زندگیوں کو شدید خطرہ ہے، حاملہ خواتین لاکھوں میں ہیں ان کے حمل ضائع ہونے کے علاوہ ان خواتین کی صحت بھی خطرے میں، شرم اور پردے کی وجہ سے اکثریت رفع حاجت سے گریزاں ہے اور کھاتی پیتی بھی کم رہیں کیونکہ کہیں بھی رفع حاجت کا مناسب انتظام نہیں تھا۔

ایک اور کاش!

پینے کو صاف پانی مل پاتا اور یہ مجبور بے گھر بے بس سیلاب کا گندہ پانی پینے سے بچ جاتے۔ کاش! یہ سیلاب کا تعفن زدہ پانی اب تک خشک ہوچکا ہوتا یا کسی طرح سے اسکا رخ یا بہاؤ ممکن ہو پاتا۔

کاش کی اذیت ناک تفصیل تو چلتی رہے گی لیکن سوچیے اب کرنا کیا ہے کیونکہ حکمران تو کچھ کرنے کو تیار نہیں ان بے چاروں کے تو اپنے ذاتی مفاد اور عناد کے بکھیڑے ہی بہت ہیں۔

کاش کہ ان حکمرانوں کے پاس پاکستان کی عام عوام کے لیے تو خیر چھوڑیں، سیلاب زدگان سے ہی کوئی ہمدردی ہوتی!

کاش کہ اب بھی ڈیم بنانے کا سوچیں اور ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ جب کبھی بھی سیلاب آئے تو منہ کی کھائے!

کاش کہ مون سون کی بارشیں صرف چائے پکوڑوں سموسوں اور پکوان کی نوید لائیں!

کاش کہ کبھی بھی سیلاب کی تباہی ایسی نہ ہو کہ مردوں کو دفنانے کی جگہ نہ ملے اور زندوں کو پانی کھانا اور سر چھپانے کی جگہ!

کاش کہ اس وقت ڈینگی اور ملیریا کے علاج کے ساتھ دیگر امراض کا علاج بھی مہیا ہو سکے!

دعا ہے 2023 پورے پاکستان اور عوام کی خوشحالی، سیلاب متاثرین کی بحالی اور حکمرانوں کی غفلت سے بیداری کا سال ہو۔ آمین!

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button