محمد فہیم
پیر کے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا ان کے دورے سے قبل متعلقہ حکام کو بھی آگاہ کیا گیا تھا وزیر اعظم کے دورے میں شرکت کیلئے گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان جانے کا فیصلہ کیا۔ پشاور سے تقریبا 6 سے 8گھنٹے کا سفر ہونے کے باعث گورنر نے حکومت خیبر پختونخوا سے ہیلی کاپٹر طلب کرلیا جس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے گورنر غلام علی کو ڈیرہ اسماعیل خان کے دورے کیلئے ہیلی کاپٹر دینے سے انکار کردیا صوبائی حکومت کے جواب کے مطابق اس وقت دو سرکاری ہیلی کاپٹر ہیں جن میں ایک سرکاری ہیلی کاپٹر کے ڈاؤن یعنی استعمال میں نہ ہونے کی وجہ سے معذرت کرلی گئی وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے جواب میں کہا گیا کہ دوسرا ہیلی کاپٹر وزیراعلیٰ کے کسی بھی وقت ہنگامی دورے کے لیے رکھا گیا ہے صوبائی حکومت نے انکار تو کردیا تاہم گورنر غلام علی نے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سڑک کا انتخاب کیا اور بذریعہ سڑک ڈی آئی خان پہنچے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت دو مرتبہ پہلے بھی گورنر کو ہیلی کاپٹر دینے سے معذرت کرچکی ہے دوسری جانب یہ ہیلی کاپٹر گورنر ہاﺅس میں بھی اترتا اور اڑان بھرتا ہے جس کی وجہ وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں ہیلی کیلئے موزوں جگہ نہ ہونا ہے گورنر کو ہیلی نہ دینے کی وجہ اصل میں صوبائی اسمبلی سے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا قانون گورنر کی جانب سے واپس کرنا بھی ہے لیکن اب معاملہ اس نوعیت تک چلا گیا کہ گورنر نے صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر گورنر ہاﺅس میں اتارنے اور اڑانے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کردیا جس کے بعد بیرسٹر محمد علی سیف نے گورنر ہاﺅس کو تالہ لگانے کی دھمکی دیدی ہے اور کہا ہے کہ گورنر ہاﺅس کے باہر ہماری حدود ہیں۔
آئین پاکستان نے صوبائی اور وفاقی حکومت کی حدود اس طرح متعین کی ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے ریاست کیلئے کام کرتے ہیں اس وقت وزیر اعلیٰ ہاﺅس اور گورنر ہاﺅس دونوں کنٹونمنٹ بورڈ کی زمین اور حدود میں ہیں کنٹونمنٹ بورڈ کا سربراہ سٹیشن کمانڈر ہے جو وفاقی حکومت کا ملازم ہے لہٰذا صوبائی حکومت کی حدود کہاں ہیں اور وہ کہاں پر تالے لگا سکتے ہیں اس پر بحث کرنا سود مند نہیں لیکن اس بات پر افسوس ضرور کیاجاسکتا ہے کہ صوبائی حکومت سیاسی جنگ میں اس حد تک بڑھ گئی کہ صوبے کے مسائل ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کیلئے اس ہیلی کاپٹر کو رکشے کی طرح استعمال کیا گیا انہوں نے صوبہ بھر میں جلسے کئے انہیں پک اینڈ ڈراپ دینے کیلئے وزیر اعلیٰ محمود خان نے اپنی ذمہ داری نظر انداز کردی اور ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی بجائے سیاسی کارکن کے طور پر کام کرتے رہے لیکن گورنر کیلئے ہیلی گراﺅنڈ ہوگیا اور وزیر اعلیٰ کا ہنگامی دورہ بھی ممکن ہوگیا۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو ایک عام سرکاری ملازم کو بھی ہیلی استعمال کرنے کی اجازت دینے کیلئے ایوان سے قانون منظور کرا لیا گیا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا لگ رہا ہے لیکن سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا ہیلی کاپٹر دینا اور نہ دینا کسی عام خیبر پختونخوا کے شہری کا مسئلہ ہے؟ کیا کوہستان میں کھانے کیلئے سر توڑ کوشش کرنے والے شہری، چترال کی سردی کو شکست دے کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے شہری، لکی مروت میں انتہائی نازک حالات میں زندہ گھر لوٹ کر گھر کا چولہا گرم رکھنے والے شہری اور پشاور کی سڑکوں پر چند کوڑیوں کیلئے مزدوری کرنے والے شہرین کیلئے ہیلی کاپٹر کا مسئلہ سنگین ہے؟ اس کا جواب گورنر خیبر پختونخوا غلام علی اور وزیر اعلیٰ محمود خان خود سے پوچھیں۔ چار کروڑ سے زائد شہریوں کیلئے اس وقت مہنگائی اور امن و امان سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن حکمرانوں کو میڈیا پر بیان بازی اور اخبارات کی شہہ سرخیوں میں جگہ بنانے سے فرصت نہیں ہے۔
اس ہیلی کاپٹر کے معاملے پر آئندہ بھی کئی روز تک میڈیا کی زینت بنا رہے گا ایک سیاسی رہنما خود کو میڈیا پر زندہ رکھے گا تو دوسرا اپنے رہنما کو خوش کرنے کیلئے بیان بازی کریگا لیکن خیبر پختونخوا کے سیلاب متاثرین ، سکول سے باہر لاکھوں بچے، صحت کی سہولت سے محروم خواتین ، آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم جسمانی معذور افراد اور ہمارے مستقبل کے امین یعنی نوجوانوں کیلئے کوئی پالیسی سامنے لانے کیلئے لائحہ عمل نظر نہیں آئیگا۔ صوبے میں ترقیاتی فنڈز منجمد ہیں تنخواہیں جاری کرنا بھی مشکل سے پورا ہورہا ہے لیکن صوبائی حکومت کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی جس میں عمران خان کی شاباشی حاصل کرنے کیلئے وہ وفاق کے ساتھ جنگ مول نہ لے لے اور اس جنگ سے عمران خان کی تھپکی تو محمود خان کو مل جاتی ہے لیکن اس تھپکی کی قیمت خیبر پختونخوا کی عوام کو چکانا پڑتی ہے۔