لائف سٹائلکالم

مہنگائی اور ہماری ذمہ داری

 

حمیرا علیم 

دسمبر شمسی سال کے خاتمے کی علامت ہے اور جنوری نئے سال کی شروعات کی۔ سال 2022 کئی لحاظ سے برا تھا تو کچھ چیزیں اچھی بھی تھیں۔ کووڈ کے اثرات کچھ کم ہوئے تو روس اور یوکرین کی جنگ چھڑ گئی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی جو کسر کووڈ-19 نے چھوڑی تھی وہ اس جنگ نے پوری کر دی۔ کووڈ کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی اس میں خاطر خواہ اضافہ جنگ نے کر دیا۔
اس مہنگائی کا اثر پاکستان پر بھی ہوا۔ عوام بیچاری 260 روپے کا پٹرول، 400 پر کلوگرام مرغی، 1700 پر کے جی مٹن، 1000 پر کے جی بیف، 1800 کا 20 کے جی کا آٹے کا تھیلا، 2950 کا گھی آئل، 160 پر کے جی چینی خریدنے سے ہی قاصر تھی کہ ایک نیا مژدہ سننے کو ملا کہ مرغی کا گوشت 1000 پر کے جی اور انڈے 500 کے درجن ہونے والے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کراچی پورٹ پر کھڑے سویابین کے کنٹینرز کی کلیرنس نہیں مل رہی اور سویابین مرغیوں کی فیڈ کا ایک اہم جز ہے۔
کل مارکیٹ سے گزری تو سبزی کی دکان سے ونڈو شاپنگ کی غرض سے پیاز کے بھاو معلوم کیے تو جواب ملا 300 روپے کلو۔ میں نے حیرت سے پوچھا:” اتنا مہنگا کیوں ہے ہم تو کوئٹہ میں ایرانی پیاز 380 کا 5 کلو اور250 کا 5 کلو آلو لے رہے ہیں۔” تو جھٹ سے بولے:” کراچی پر کنٹینرز کھڑے ہیں جو کلیئر نہیں ہو رہے اس لیے ہمیں مصر سے پیاز منگوانا پڑتا ہے۔”

اپنی کم علمی اور سبزی فروش کی معلومات پر رشک کرتے ہوئے گھر کی راہ لی۔ آج گوگل نیوز فیڈ میں سویابین کے کنٹینرز کے بارے میں پڑھا تو معلوم ہوا کہ کنٹینرز کا پیاز سے تو کوئی تعلق ہی نہیں۔
مگر پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب ہے۔ اس لیے دودھ والا 200 پر لٹر دودھ کرے یا پیاز والا 1500 کا 5 کلو پیاز عوام کو بخوشی خریدنا پڑتا ہے کیونکہ پاپی پیٹ کے لیے تو انسان سب کچھ کرتا ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی کا پاکستان کی مہنگائی سے موازنہ کرنے کے لیے نیوزی لینڈ میں موجود بہن اور یو کے میں رہائش پذیر بھائی سے بات کی تو پتہ لگا کہ انہیں جو آئل پہلے 15 پاونڈز اور 25 ڈالرز کا ملتا تھا ابھی اور 80 کا ہے۔ چند کھیرے اور ٹماٹر 8 ڈالرز ہے ٹشو پیپرز اور انڈوں کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اسٹورز نے ان کے لیے مختص شیلوز خالی کر دی ہیں اور ایک شخص کو صرف ایک درجن انڈے اور دو رولز ٹشوپیپرز مل سکتے ہیں۔
گوشت  مرغی  اور مچھلی کے ریٹس بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ پانی گیس اور بجلی کے بلز پاکستانی 50 سے 90 ہزار تک کے ہیں۔ یہ سن کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں یوکے یا نیوزی لینڈ میں نہیں ورنہ تو مجھے ہارٹ اٹیک ہی ہو جاتا۔ کیا ہوا جو ہماری اگلی کئی نسلیں آئی ایم ایف کی قرض دار ہیں، آئی ایم ایف کا جتنا اور جب دل چاہے ہمیں ذلیل کر سکتا ہے ہم پر ٹیکسز کی بھرمار کر سکتا ہے، ہم دنیا بھر میں فقیر سمجھے جاتے ہیں،  لوگ ہمیں صدقہ خیرات زکوۃ بھیجتے ہیں، ہمیں گیس، بجلی، پانی، آٹا، چینی، گوشت وغیرہ میسر نہیں۔ شکر ہے بلز صرف 3 سے پندرہ ہزار ہی آتے ہیں۔
تو جناب مہنگائی کا بم توعالمی سطح پر پھوٹ ہی چکا ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بم کے آفٹر افیکٹس بالکل ویسے ہی طویل ہوں گے جیسے کہ ناگاساکی پر امریکن فیٹ بوائے کے تھے لیکن اس میں کچھ قصور ہمارا بھی ہے کیونکہ ہم اشیائے ضرورت کے نرخ بڑھنے پر کبھی کوئی ردعمل ہی ظاہر نہیں کرتے۔ اگر ہم بھی ارجنٹائن کے عوام کی طرح ہر اس چیز کا بائیکاٹ کر دیں جس کا نرخ بڑھے تو کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں مہنگائی حد سے تجاوز کر جائے۔
ارجنٹائن کا ایک شہری انڈوں کا کارٹن خریدنے گیا قیمت کے بارے میں پوچھا تو اسے معلوم ہوا کہ قیمت معمول سے زیادہ ہے۔ اس نے بیچنے والے سے وجہ پوچھی تو جواب ملا: ” پولٹری فارمز نے قیمت بڑھا دی ہے ۔”

شہری نے خاموشی سے کارٹن واپس اسی جگہ پر رکھ دیا اور کہا: ” انڈوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ انڈوں کے بغیر رہ سکتے ہیں۔” اور یہ کام تمام شہریوں نے بغیر کسی مہم اور ہڑتال کے کیا۔ یہ ان لوگوں کا کلچر تھا۔
لوگوں نے قبول نہیں کیا کہ کمپنیاں انہیں بلیک میل کر رہی ہیں۔

ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ بعد ڈسٹری بیوٹرز کے ملازمین انڈے سٹوروں کے حوالے کرنے آئے لیکن مالکان نے انڈے کے نئے کارٹن اتارنے سے انکار کر دیا کیونکہ کسی نے پرانے انڈے کے کارٹن نہیں خریدے۔

ڈسٹری بیوٹرز نے لوگوں کی ضد پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج چند دنوں میں ختم ہو جائیں گے اور لوگ انڈوں کی معمول کی خریداری پر واپس آ جائیں گے لیکن لوگ ضد پر تھے انہوں نے انڈوں کا بائیکاٹ کیا اور کمپنیاں خسارے میں جانے لگیں۔ انڈوں کے ڈبے کی قیمت،ان مرغیوں کو کھانا کھلانا جو انڈے کھانے اور پیدا کرنے سے باز نہیں آتے تو نقصانات جمع اور دگنے ہو گئے۔
پولٹری کمپنیوں کے مالکان نے ملاقات کی اور انڈوں کی قیمت سابقہ ​​قیمت پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا
بائیکاٹ جاری رہا۔
فارمز نے تقریباً دیوالیہ پن کا اعلان کر دیا اس لیے وہ دوبارہ ملے اور فیصلہ کیا:
تمام میڈیا میں ارجنٹائن کے لوگوں سے سرکاری معافی کی پیشکش کریں۔ انڈوں کی قیمت کو ان کی سابقہ ​​قیمت کے ایک چوتھائی تک کم کرنا۔ یہ ایک سچی کہانی ہے، تخیل کا افسانہ نہیں۔

ہم بحیثیت عوام کسی بھی شے کی قیمت کم یا بڑھا سکتے ہیں۔ صرف ذرا سی یکجہتی اور سوچ بچار کی ضرورت ہے کوئی مہم یا ہڑتال نہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان آج اتحاد اور دوسروں کے لیے احساس سے عاری ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ کساد بازاری کا شکار ہیں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور 2023 کو خیرو عافیت کا سال بنائے جس میں دنیا بھر میں امن و امان اور خوشحالی ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button