تحریری ٹیسٹ میں ٹاپ، انٹرویو میں صفر، یہ ماجرا کیا ہے؟
حمیرا علیم
پاکستان ایک حیرت کدہ ہے؛ ویسے تو یہاں روز ہی کوئی نہ کوئی عجوبہ وقوع پذیر ہوتا ہی رہتا ہے، کبھی واپڈا کسی ایک کمرے کے گھر کے مکینوں کو لاکھوں کا بل بھیج دیتا ہے تو کبھی کوئی لڑکا بورڈ کے امتحان میں ہوم اکنامکس میں اول پوزیشن لے لیتا ہے تو کبھی کوئی بچی 1100 میں سے 1099 نمبر لے لیتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے معجزے بھی رونما ہو جاتے ہیں جو ہمارے ارباب اختیار و اقتدار کی خدائی طاقتوں کا کرشمہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا ہی ایک چشم کشا واقعہ کے پی کے رضوان اللہ کے ساتھ پیش آیا۔
رضوان اللہ نے ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) کے عہدے پر فاسٹ ٹریک پرموشن کے لیے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی مگر انٹرویو میں انہیں زیرو نمبر دیے گئے ہیں۔ رضوان اللہ نے اپنے مسئلے کے حل کے لیے کے پی پولیس کے سینئر کمانڈ سے رابطہ کیا، ان کی بدقسمتی کیس کے بارے میں کچھ نہیں کیا گیا۔
اگرچہ تحریری امتحان میں ٹاپرز کا انٹرویو میں فیل ہونا سرکاری اداروں میں ایک عام سی بات ہے۔ یہ مبینہ طور پر اقربا پروری کی بنیاد پر امیدواروں کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے مگر شاید ہی تاریخ میں کبھی کسی امیدوار کو صفر نمبر دیئے گئے ہوں۔ ڈی ایس پی کی سات آسامیوں کے لیے 23 کے قریب امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا اور رضوان اللہ نے 456 نمبر لے کر امتحان میں ٹاپ کیا۔ تاہم انٹرویو لینے والوں نے حیرت ہے کہ انہیں صفر نمبر دیئے۔ اگر دیگر امیدواروں کے انٹرویو اور تحریری اسکور کو ملایا جائے تو پھر بھی رضوان اللہ کے نمبر دوسروں سے زیادہ ہوں گے۔ کوئی بھی امیدوار جو انٹرویو میں ناکام ہو جاتا ہے براہ راست ڈی ایس پی کے عہدے پر تقرری کی دوڑ سے باہر ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کے پی پولیس کے تقرری کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ انٹرویو لینے والوں کے مقاصد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے عجیب انداز میں امیدوار کو ناکام کیا اور ان کی تعلیمی کارکردگی کو نظرانداز کیا۔
چند سال پہلے ایسا ہی ایک اسکینڈل بلوچستان پی سی ایس میں بھی ہو چکا ہے جس میں آفیسرز نے اپنے میٹرک اور ایف اے پاس بھانجوں بھتیجوں کو 17 گریڈ کے آفیسرز کی سیٹس پر پوسٹ کر دیا تھا جبکہ جن لوگوں نے تحریری امتحان پاس کیا تھا وہ بیچارے ڈس کوالیفائی کر دیئے گئے تھے۔
ویسے تو ہمارے ہاں ہر محکمے میں ہی ایسی اقربا پروری اور رشوت ستانی ہوتی ہی رہتی ہے لیکن پی سی ایس اور ایف پی ایس سی کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ ان محکموں میں کوئی سفارش یا رشوت کام نہیں کرتی اور جو شخص بھی قابلیت رکھتا ہے اور ان امتحانات کو پاس کر لیتا ہے اسے جاب مل جاتی ہے مگر اب یہ محکمہ بھی کرپشن کا شکار ہو چکا ہے۔
اس کرپشن کو ختم کرنے کے لیے این ٹی ایس متعارف کروایا گیا تھا جو کہ 16 گریڈ سے لے کر تمام جابز ہائر گریڈز کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا۔ مجھے خود تو یہ امتحان دینے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن ایک ہمسائے کے بیٹے اور بیٹی نے، جن کی قابلیت ایم بی اے اور ایم فل کمپیوٹر سائنسز تھی، این ٹی ایس میں دو بار ٹیسٹ دیا۔ پہلی بار تو دونوں ہی بڑی طرح فیل ہو گئے، دوسری بار پاس تو ہو گئے مگر جاب پھر بھی نہ ملی۔
اس سسٹم کی کچھ باتیں مجھے سمجھ نہیں آئیں۔ اگر آپ ایک ڈاکٹر کی پوسٹ کے لیے یا کسی سبجیکٹ سپیشلسٹ لیکچرار کی پوسٹ کے لیے ایک ٹیسٹ لے رہے ہیں تو ان کی فیلڈ اور مضمون سے متعلقہ سوالات پر مشتمل پیپر ہونا چاہیے۔ اس کے لیے انہیں میتھس، انگلش، اردو، سائنس، جنرل نالج اور جیومیٹری کے سوالات کیوں حل کرنے چاہیے ہیں؟ دوسرے اس سسٹم کے تحت اگر کوئی شخص یہ ٹیسٹ پاس کر لیتا ہے تو چھ ماہ تک تو یہ ٹیسٹ ویلڈ رہے گا اور اس کے بعد اگر اسے کسی جاب کے لیے اپلائی کرنا ہو تو اسے دوبارہ یہ ٹیسٹ پاس کرنا ہو گا۔ مجھے تو یہ بھی حکومت کے فلڈ ریلیف فنڈ، سستا گھر اسکیم ٹائپ اسکیمز کی طرح پیسے کھانے کا ایک ڈھونگ ہی لگتا ہے۔
اچھی خاصی فی دے کر نجانے کتنے ہی لوگ اس ٹیسٹ میں اپیئر ہوتے ہیں۔ جو پاس کر لیتے ہیں انہیں بھی جاب نہیں ملتی۔ ایک تو بے روزگاری اس پر ہر بار جاب کے لیے سی وی، اپنی ڈگری سرٹیفیکیٹس کی فوٹو کاپیز اور ٹیسٹ/جاب کے فارمز کے لیے فی، ٹیسٹ انٹرویو کے مقام ہر پہنچنے کا کرایہ، کیا یہ ان بے روزگار تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ مذاق نہیں؟
چند ماہ پہلے نادرا کوئٹہ میں ایک پراجیکٹ کے تحت جابز نکلیں، شاید 30 سیٹس تھیں، میں نے بھی اس کے لیے اپلائی کرنے کا سوچا اگرچہ میری ایج تو زیادہ تھی مگر کوالیفیکیشن بھی زیادہ تھی تو میں نے بھی ٹیسٹ کے لیے جانے کا سوچا۔ واک اِن ٹیسٹ انٹرویو تھا لہذا اپنی سی وی اور ڈگریز لیں اور نادرا آفس پہنچ گئی۔ خاصی بڑی بلڈنگ کے صحن میں ہر طرف لڑکے لڑکیاں نظر آ رہے تھے۔ ہمیں ایک ہال میں لے جا کر کمپیوٹرز کے سامنے بٹھا دیا گیا کہ جی ڈائریکٹ اسلام آباد سے آپ کا ٹیسٹ لیا جائے گا۔ چونکہ بلوچستان میں خواتین فیس کور کرتی ہیں تو ان سے کہا گیا کہ حجاب اتار دیں تاکہ آپ کی فیس ریکگنیشن کی جا سکے۔ پھر آن لائن ٹیسٹ لیا گیا جس میں پورے ہال کو بروقت ایک سوال دیا جا رہا تھا جس کا جواب دینا ہوتا تھا۔ سو سوال تھے جنہیں 25 منٹس میں کرنا تھا، میتھس، کمپیوٹر، سائنس اور جنرل نالج کے سوالات تھے۔ 25 منٹ بعد ہمیں ٹائپنگ سے روک دیا گیا۔ میں چونکہ اپنے بچوں کو خود پڑھاتی ہوں تو زیادہ تر سوالات میرے لیے آسان تھے۔ میں نے 20 منٹس میں ان سوالات کے جوابات دے دیئے تھے مگر کچھ بے چارے ابھی بیس سوال بھی نہیں کر سکے تھے۔ 5 منٹ بعد ہمارے سامنے پڑے کمپیوٹرز پر رزلٹ بھی آ گیا۔ جو ٹیسٹ پاس کر چکے تھے انہیں دوسرے دن انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔
دوسرے دن پہنچی تو 30 سیٹس کے لیے کوئی 150 بندے موجود تھے۔ کچھ لڑکیوں کے چہروں سے پریشانی مترشح تھی مگر کچھ ایسی بھی تھیں جو فل میک اپ میں اور اپنی طرف سے خاصے الٹرا ماڈرن مگر مضحکہ خیز حلیے میں تھیں جو کہ بلوچستان میں خاصی عجیب بات ہے۔ اور اس پر مستزاد وہ کچھ صاحبان کی تلاش میں تھیں۔ چونکہ نو بجے کا ٹائم تھا اور بلوچستان میں ایک نارم ہے کہ آفسز، ہاسپٹلز میں دس بجے کے بعد آیا جاتا ہے لہٰذا وہ صاحبان ان خواتین کو پارکنگ سے آتے دکھائی دیئے تو بھاگ کر انہیں ویلکم کیا اور بڑے دلار سے بولیں: "مجھے نہیں پتہ یہ جاب مجھے ہی ملنی چاہیے۔” ان آفیسرز نے انہیں ایک مسکراہٹ سے نوازا اور تسلی دی۔ چند جملوں کا ایکسچینج کیا اور آفس کی طرف بڑھ گئے۔
ساڑھے دس بجے انٹرویو شروع ہوا تو شروع میں ہی میرا نمبر بھی آ گیا۔ کمرے میں داخل ہوئی تو پانچ آفیسرز بیٹھے تھے۔ میرے پیپرز چیک کر کے میرا نام اردو میں ہی پوچھا گیا حالانکہ میری ڈگریز پر اور میرے نمبر کے ساتھ میرا نام لکھا ہوا تھا۔ اگلا سوال تھا: "یہ پبلک ڈیلنگ جاب ہے کیا آپ مردوں سے بات چیت کر لیں گی؟” میں نے انہیں بتایا کہ میں دس سال جاب کر چکی ہوں اس لیے میرے لیے پبلک ڈیلنگ مسئلہ نہیں ہے۔ بس یہ سن کر انہوں نے فرمایا: "شکریہ آپ کو کال کر دی جائے گی۔”
مجھے اسی وقت سمجھ آ گئی کہ جاب کے لیے اپائٹمنٹ ہو چکی ہے اور انہی کلر فل پیسٹریز کی ہوئی ہے جنہوں نے شاید ٹیسٹ بھی پاس نہیں کیا تھا کیونکہ اگر واقعی کسی کی قابلیت کی بناء پر تقرری ہونا ہوتی تو انٹرویو میں کئی سوالات ہوتے اور بہت سی چیزیں جانچی جاتیں۔ میرے لیے جاب اہم نہیں تھی اس لیے مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ مجھے جاب نہیں ملی۔ مگر ان بچے بچیوں پر ترس آیا جو نجانے کتنی دور سے، پیسے خرچ کر کے، تیاری کر کے آئے تھے اور جاب ان کو ملی جن کے پاس اپروچ تھی۔
تو جناب یہ ڈرامہ پاکستان کی یوتھ کے لیے اب نیا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایم ایس سی پاس گولڈ میڈلسٹ برگرز، آئس کریم، پٹرول بیچتے نظر آتے ہیں اور ڈاکٹرز انجینئرز کسی نہ کسی مغربی ملک کی طرف نکل جاتے ہیں۔