سیاستکالم

وہ بے نظیر تھی، وہ آج بھی بے نظیر ہے!

حمیرا علیم

اپریل 1986 کا ایک دن تھا جب میں نے پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کی دختر بینظیر کا نام سنا؛ وہ لاہور ایئرپورٹ پر آ رہی تھیں، ان کے استقبال کے لیے بیس لاکھ لوگ لاہور میں موجود تھے اور کہا جا رہا تھا کہ بی بی پر اس قدر گل پاشی کی گئی تھی کہ سڑکیں سرخ ہو گئی تھیں۔

ہم چونکہ گوجرانوالہ میں رہائش پذیر تھے اور جی ٹی روڈ کے ساتھ کالونی تھی لہذا ساری کالونی کے مردوزن اور بچے چھتوں پر چڑھے ہوئے تھے کہ بی بی کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ دوپہر سے رات ہو گئی مگر بی بی کی آمد نہ ہوئی کیونکہ راستے میں پی پی پی کے کارکنان کا اس قدر رش تھا کہ ایک گھنٹے کا سفر پورے دن پر محیط ہو گیا۔ رات گئے بی بی کا قافلہ سڑک سے گزرا تو ہم سب نے انہیں دیکھا۔

بے نظیر بھٹو کراچی پاکستان میں ایک ممتاز سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ 16 سال کی عمر میں ہارورڈ کے ریڈکلف کالج میں پڑھنے کے لیے اپنا وطن چھوڑا۔ انڈرگریجویٹ ڈگری مکمل کرنے کے بعد انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، 1977 میں ڈگری لی اور اسی سال کے آخر میں وہ پاکستان واپس آ گئیں جہاں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ لیکن ان کی آمد کے چند ہی دن بعد، فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ان کے والد کو قید کر دیا گیا۔ 1979 میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے انہیں پھانسی دے دی۔

خود بی بی کو بھی اگلے برسوں میں کئی بار گرفتار کیا گیا، اور 1984 میں ملک سے باہر جانے کی اجازت ملنے سے پہلے انہیں تین سال تک نظر بند رکھا گیا۔ وہ لندن میں مقیم ہوئیں اور اپنے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر فوجی آمریت کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک زیرزمین تنظیم کی بنیاد رکھی۔ جب 1985 میں ان کے بھائی شاہنواز کا انتقال ہوا تو وہ ان کی تدفین کے لیے پاکستان آئیں اور حکومت مخالف ریلیوں میں شرکت پر دوبارہ گرفتار کر لی گئیں۔

رہائی کے بعد لندن چلی گئیں۔ سال کے آخر میں پاکستان میں مارشل لاء اٹھا لیا گیا۔ ضیاء مخالف مظاہرے دوبارہ شروع ہوئے اور اپریل 1986 میں بی بی پاکستان واپس آئیں۔ ان کی واپسی پر عوامی ردعمل ہنگامہ خیز تھا، اور انہوں نے عوامی طور پر ضیاء الحق سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جن کی حکومت نے ان کے والد کو پھانسی دی تھی۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرمین منتخب ہوئیں اور 1988 میں جب آزادانہ انتخابات ہوئے تو وہ خود وزیر اعظم بن گئیں۔

35 سال کی عمر میں وہ دنیا کی سب سے کم عمر چیف ایگزیکٹوز میں سے ایک تھیں اور کسی اسلامی ملک میں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون تھیں۔ اپنی پہلی مدت کے صرف دو سال بعد صدر غلام اسحاق خان نے بی بی کو عہدے سے برطرف کر دیا۔ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف مہم شروع کی اور 1993 میں دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ وہ دیہی علاقوں میں بجلی لائیں اور پورے ملک میں اسکول بنائے۔ بھوک، رہائش اور صحت کی دیکھ بھال کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا اور پاکستان کو جدید بنانے کے لیے آگے بڑھنے کی امید ظاہر کی۔

اسی دوران بی بی کو اسلامی بنیاد پرست تحریک کی طرف سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بھائی میر مرتضیٰ، جو اپنے والد کی وفات کے بعد سے بے نظیر سے بچھڑ گئے تھے، بیرون ملک سے واپس آئے اور انہوں نے بے نظیر کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ میر مرتضیٰ اس وقت ہلاک ہوئے جب مبینہ طور پر ان کا محافظ کراچی میں پولیس کے ساتھ فائرنگ میں ملوث ہوا۔

1996 میں پاکستان کے صدر لغاری نے بے نظیر بھٹو کو بدانتظامی کا الزام لگاتے ہوئے عہدے سے برطرف کر دیا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ 1997 میں بھٹو کے دوبارہ انتخاب کی کوشش ناکام ہو گئی۔ نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے مارشل لاء لگایا گیا اور بینظیر بھٹو کے شوہر کو قید کر دیا گیا، اور وہ ایک بار پھر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔

نو سال تک وہ اور ان کے بچے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ آصف علی زرداری 2004 میں جیل سے رہا ہوئے اور لندن میں اپنے خاندان سے دوبارہ مل گئے۔ 2007 کے موسم خزاں میں، بنیاد پرست اسلام پسندوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیوں اور حکومت کی دشمنی کے پیش نظر بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر اپنے آبائی ملک واپس آ گئے۔ اگرچہ پرجوش ہجوم نے ان کا استقبال کیا لیکن ان کی آمد کے چند ہی گھنٹوں کے اندر ان کے موٹرکیڈ پر ایک خودکش بمبار نے حملہ کر دیا۔ وہ اس پہلے قاتلانہ حملے میں بچ گئیں حالانکہ اس حملے میں 100 سے زیادہ راہگیر ہلاک ہو گئے تھے۔

جنوری 2008 میں ہونے والے قومی انتخابات کے ساتھ ان کی پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسی فتح کے لیے تیار تھی جو بی بی کو ایک بار پھر وزیر اعظم بنائے گی۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل ہی شدت پسندوں نے پھر حملہ کیا۔ راولپنڈی میں ایک انتخابی ریلی کے بعد ایک بندوق بردار نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے بعد ان کی گاڑی کے قریب ایک زوردار دھماکہ ہوا، ایک خودکش بمبار نے خود کو اور 20 سے زائد راہگیروں کو ہلاک کر دیا۔

بی بی کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن حملے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئیں۔ ان کی موت کے بعد ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ملک کے مقبول ترین جمہوری رہنما کے کھو جانے نے پاکستان کو مصیبت میں ڈال دیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پی پی پی کے چیئرمین کے طور پر ان کی جگہ لینے کے لیے اپنے انتخاب کے طور پر وصیت کی تھی۔ ان کی موت کے وقت بلاول صرف 19 سال کے اور آکسفورڈ میں انڈرگریجویٹ تھے۔ پارٹی قیادت نے اتفاق کیا کہ ان کے والد آصف علی زرداری اس وقت تک پارٹی کے قائم مقام چیئرمین کے طور پر کام کریں گے جب تک بلاول انگلینڈ میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کر لیتے۔

اسی سال کے آخر میں صدر مشرف نے استعفیٰ دے دیا، اور آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو ان پیش رفتوں کو دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہیں لیکن جس پارٹی کی انہوں نے قیادت کی وہ آج بھی پاکستان کی سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بے نظیر بھٹو کے کرئیر کو مسلم دنیا کی خواتین اور اسلامی انتہاپسندی کے خلاف عالمی جنگ کے لیے ایک فتح کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان پر بدعنوانی اور خراب حکمرانی کے الزامات بھی لگائے گئے۔ پاکستان میں متعدد عمارات، یونیورسٹیز اور عوامی عمارتوں کو بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے جب کہ ان کے کرئیر نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا جن میں نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button