بلاگزتعلیم

عہد کریں بچوں کو جینے کا اصل مزہ سکھائیں گے

ملک آفاق جمشید خان

انسان کی زندگی ایک امتحان ہے؛ پیدائش کے دن سے مرنے تک انسان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان مشکلات کو سب سے زیادہ سنجیدہ بچے لیتے ہیں اور بچوں کو نکما بنانے میں شاید انہی کے آس پاس کے لوگ اور ان کی تربیت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔

ہر نئے دن ایک سے ایک خوبصورت بچہ جنم لیتا ہے، اگر ان بچوں کو ان کی سوچ کے مطابق تربیت دی جائے تو یہ دنیا کو کافی بہتری کی طرف ہر لحاظ سے لے جا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے بڑے بچوں کو کمینہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان معصوم بچوں کا مستقبل برباد ہو جاتا ہے۔

کم عمری میں ان بچوں کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے لیکن آس پاس کے لوگ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچے کے دل اور دماغ کو نقصان پہنچائیں اور وہ ہنستا کھیلتا بچہ آخرکار خاموش ہو جاتا ہے اور پھر وہ سوچنے لگتا ہے، اور کم عمری کی وجہ سے یہ سوچ اس پر منفی اثر کرتی ہے۔

ہر بچے کے ذہن میں جو الگ اور منفرد خیالات ہوتے ہیں جو کہ اپنے قوم کے لئے آنے والے وقت میں کافی مددگار اور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں، وہ ختم ہو جاتے ہیں اور پھر یہی لوگ اپنے بچوں سے شکایت کرتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ انسان آخر کس قدر بے وقوف ہے کہ سچ سامنے ہوتے ہوئے، حقیقت جانتے ہوئے اور صحیح اور غلط میں فرق کرتے ہوئے بھی غلط راستہ اختیار کر لیتا ہے۔

ہم تمام مسلمانوں کو یہ بخوبی پتہ ہے کہ نماز قضا کرنا، جھوٹ بولنا، کسی کو دکھ دینا، غیبت کرنا، ناانصافی کرنا غلط ہے، ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اس کے نقصانات دنیا اور آخرت دونوں میں ہیں لیکن دل سے تسلیم کرنے والا کوئی نہیں اور جب سب کچھ سامنے آتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

اگر اس تمام حقیقت کو دل سے تسلیم کیا جاتا تو آج مسلمان دنیا میں متحد و متفق، خوش اخلاق، ایماندار اور تربیت یافتہ جانے جاتے لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کو سب سے زیادہ بے ایمان اور نچلے درجے کے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کیا مسلمان اس حد تک پہنچ گئے؟

ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو کچھ سکھایا اور اپنی امت سے جو توقعات رکھی تھیں وہ یہ تھیں؟ آپ کی محنت اور بے پناہ قربانیوں کا صلہ ہم یہ دے رہے ہیں جنہوں نے اپنی رحلت کے وقت بھی اپنی امت کے لئے دعا کی تھی۔

کاش! آج تمام مسلمان اتفاق اور اتحاد میں رہتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے ایک رول ماڈل بنا کر گزارتے تو مسلمان دنیا کی طاقتور قوم مانی جاتی لیکن آج کا مسلمان صرف نام کا مسلمان ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں اور سوچنے کا مقام بھی؟

اچھے عمل سے ہم اپنے دشمن کا دل بھی جیت سکتے ہیں۔ میرا چند سالوں کی زندگی میں یہ تجربہ رہا ہے کہ اگر کوئی انسان سچ بولے اور ہر کام ایمانداری سے کرے تو وہ سچ کوئی فائدہ لے کر ضرور سامنے آتا ہے اور اسی کے برعکس اگر کوئی انسان جھوٹ بولے تو وہ جھوٹ ضرور ایک نا ایک دن اسے نقصان دیتا ہے۔ اور جب سچ سامنے آتا ہے تو لوگ اس بندے پر بھروسا رکھتے ہیں اور اس کو ایک نیک اور ایماندار انسان سمجھتے ہیں جبکہ جھوٹے شخص کا جھوٹ جب سامنے آتا ہے تو لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس کو بے ایمان سمجھتے ہیں۔

سچ بولنے والا بندہ دنیا میں بھی کامیاب رہتا ہے اور آخرت میں بھی، لیکن نہیں آج کا مسلمان اپنی بربادی پر تلا ہوا ہے، نہ جانے کیوں ہم صحیح راستہ جان کر غلط راستہ اختیار کرتے ہیں؟

بہترین شخص وہ ہے جو حالات کا مقابلہ کرے چاہے سخت سے سخت وقت ہو وہ سوچ و فکر کر کے فیصلہ کرے۔ ہمیشہ مستقبل کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہمارا ایک فیصلہ مستقبل کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔

ایک بچے کی اچھی تربیت ہی قوم کو مضبوط اور کامیاب بنا سکتی ہے۔ بچہ دنیا کے اصولوں سے ناواقف ہوتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اپنی سوچ کے مطابق بچوں سے توقعات رکھتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے کہ جہاں تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔

دنیا میں تقریباً ہر آٹھ میں سے ایک بچہ تشویش کا شکار ہے اور یہی بچہ ہمارا مستقبل ہے اور یہی بچہ پھر اگلے جنریشن کی تربیت کرے گا لہذا آئیے عہد کریں کہ ایک استاد کی حیثیت سے، والدین کی حیثیت سے یا بڑوں کی حیثیت سے اپنے بچوں کو ایسے تربیت دیں گے، اور ان کو اصل معنوں میں جینے کا مزہ سکھائیں گے، کہ وہ ہماری پہچان بن سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button