لائف سٹائل

مفکورہ: خیبر پختونخوا کا موسیقی کا واحد مرکز

شاہین آفریدی

پشاور کا مفکورہ خیبر پختونخوا کا موسیقی کی تعلیم کا واحد مرکز ہے جہاں نوجوان موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے لیے آتے ہیں۔ اس مرکز میں تقریباً 30 مقامی اور افغان مہاجرین موسیقی کی تعلیم سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس سنٹر میں پشتو موسیقی کو بطور کورس پیش کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔

مفکورہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کا پہلا اور واحد مرکز ہے جہاں نوجوان رسمی طور پر پشتو موسیقی سیکھ رہے ہیں۔

اے آر انور مفکورہ مرکز میں میوزک سیکشن کے سربراہ ہیں۔ وہ خیبر پختونخوا میں موسیقی کے واحد استاد ہیں۔ آے آر انور پشتو موسیقی کو فن کے علاوہ ایک مضمون یا کورس کے طور پر لوگوں میں متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے گفتگو میں اے آر انور نے بتایا، "ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جماعت اول سے لے کر بارہویں جماعت تک موسیقی کا کورس تیار کریں، یہ کورس صوبے کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے گا جو خالص پشتو موسیقی کے متعلق ہو گا۔”

اس میوزک سینٹر میں مقامی اور افغان مہاجرین، جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، موسیقی سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ مفکورہ سینٹر کے بانی اور سربراہ حیات روغانی کا کہنا تھا کہ طالب علموں میں موسیقی سیکھنے کی خواہش بڑھ رہی ہے۔

حیات روغانی کے مطابق "پشتون، ساز، آواز، موسیقی اور زندگی سے پیار کرنے والے لوگ ہیں، یہاں نوجوان آتے ہیں جو کئی کئی گھنٹوں تک بیٹھ کر موسیقی سیکھتے ہیں، حال ہی میں چھ لوگوں نے باقاعدہ طور پر موسیقی سیکھنے کے لیے ہمارے سکول میں داخلہ لیا ہے، ان کے علاوہ دس ایسے بچے بھی ہیں جو پینٹنگ سیکھنے کے لیے مفکورہ آتے ہیں، یہ لوگ امن کا پیغام آگے لے کر جائیں گے۔”

اس مرکز میں موجود خان آغا بیسودے دوسری بار پاکستان ہجرت کر کے آئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ آٹھ ماہ قبل پشاور آئے تھے۔ خان آغا کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے ہے اور وہ گزشتہ نو سال سے ملک کے مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر موسیقی کے پروگرامز کر چکے ہیں تاہم اب ان سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ اپنی زندگی سے رباب ہٹا دیں تو زندگی بے مقصد ہو جائے گی اور اسی خاطر انہوں نے پناہ گزین کے طور پر زندگی کا انتخاب کیا ہے۔

خان آغا بیسودی نے بتایا "میں نے 9 سال رباب سیکھنے میں لگائے ہیں اور اس کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے، اگر ایک دم کوئی آئے اور مجھے اپنے کام سے روک دے تو لازمی دکھ ملے گا، میں اس شعبے میں اپنی مرضی سے آیا ہوں اگر مجھے کوئی روکنے کی کوشش کرے گا تو میری زندگی کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔”

ان فنکاروں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لہر، میوزک سینٹرز اور اساتذہ کی کمی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پشتو موسیقی رسمی طور پر نہیں پڑھائی جاتی۔ اے آر انور کا کہنا تھا کہ موسیقی ثقافت کا اہم حصہ ہے اور یہ امن کا پیغام دیتی ہے۔

"یہاں موسیقی اور خصوصی طور پر پشتو موسیقی کا کوئی لٹریچر موجود نہیں ہے، پورے جنوبی ایشیاء میں گنے چنے لوگ ہیں جو موسیقی کو بطور لٹریچر متعارف کر رہے ہیں اور ان میں سے یہ اعزاز مجھے بھی حاصل ہے، میں باقاعدہ طور موسیقی کے لیکچرز دیتا ہوں، اس پر ریسرچ کر رہا ہوں اور کتابیں لکھتا ہوں۔” اے آر انور نے بتایا۔

موسیقی کے ان ماہرین کے مطابق اس کوشش سے نہ صرف پشتو موسیقی کا معیار بلند ہو گا بلکہ موسیقی کو بطور زبان یا مستقبل کے فنکاروں کے لیے لٹریچر کے طور پر بھی پیش کیا جا سکے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button