معذور نہیں خصوصی سمجھیے!
ارم رحمٰن
اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت اور مصلحت ہے اور مشیت ایزدی کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔ چار سو کس قدر خوبصورت رنگ روپ کے پھول پودے مناظر موجود ہیں؛ چھوٹے پیارے پیارے بچے کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں، جوان توانا مرد و زن چلتے پھرتے مختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھتے نظر آتے، کوہ پیمائی ہو یا سمندر کی گہرائی، دوڑنے کے مقابلے یا کشتی کے، ہر جگہ قابل رشک طاقت ور اور صحتمند لوگ ہمیں متاثر کرتے ہیں۔
لیکن کبھی ایک نظر ان پر بھی ڈالیے جو صحت سے محروم ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ جسمانی نقائص میں مبتلا ہیں۔ انہیں عام زبان میں معذور سمجھا جاتا ہے جبکہ انہیں دنیا بھر میں سپیشل لوگ یعنی "خصوصی افراد” کہا جاتا ہے۔
معذوری کے بھی وسیع درجات ہوتے ہیں ان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں؛ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی! کچھ عوارض وقتی اور کچھ طویل المعیاد ہوتے ہیں جبکہ کچھ مستقل، جیسے کوئی ذہنی معذور ہے، کچھ لوگوں کے جسمانی اعضاء مکمل نہیں ہو پاتے، کسی حادثے میں بازو، ٹانگیں کٹ گئیں یا ریڑھ کی ہڈی کے مسائل، نابینا ہو گئے یا گونگے بہرے، ایسی ہی دیگر معذوریاں!
اسی طرح یاداشت کی خرابی اور جسم کے جوڑوں میں درد اور اینٹھن، ہڈیوں کا مڑ جانا اور بہت سے دوسرے امراض، کچھ بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہیں، وہ لوگ شروع میں تو متوازن انسان ہوتے ہیں لیکن پھر بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ وہ بیماری حاوی ہو جاتی ہے۔ کچھ بیماریاں بوڑھاپے کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
بیماری یا عارضہ کوئی بھی ہو اس شخص کے ساتھ ساتھ گردونواح کے لوگ بھی تنگ آج آتے ہیں۔ کچھ نقائص قابل علاج بھی ہوتے ہیں لیکن اتنی رقم نہیں ہوتی کہ مکمل علاج کروایا جائے۔ لیکن بہت سی بیماریاں قابل علاج نہیں ہوتیں اور وہ مستقل معذوری ہی کہلاتی ہیں۔
الغرض معذوری کوئی بھی ہو ہمیں بحیثیت اشرف المخلوقات اور ایک باوقار قوم ان سب مرد و زن کو ساتھ لے کر چلنا ہے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں تاکہ یہ لوگ بھی کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں، ان کی عزت اور عزت نفس مجروح نہ ہو سکے، سب سے بڑھ کر ان کا وجود کسی پر اور خود ان پر بھی بوجھ نہ بن سکے۔
کچھ بیماریوں کے علاوہ اکثر تکلیفوں اور عارضوں کا علاج نکل آتا ہے؛ دنیا میں نابینا حضرات کے لیے بہترین کام کوریا اور انڈیا میں ہوا ہے۔ نابینا افراد کے لیے پڑھائی لکھائی کا مکمل انتظام کیا جاسکتا ہے۔ ان کو پڑھائی کے لیے "بریل” سسٹم دے دیا جاتا ہے تاکہ نابینا افراد بریل سسٹم کے مطابق پڑھیں، ملک کی ترقی میں کام آئیں۔
دنیا میں نابینا افراد تو پی ایچ ڈی سکالر بھی ملتے ہیں، حافظ قران اور بہت زبردست حمد وثنا کرنے والے نعت خواں، غرضیکہ نابینا قابل پروفیسرز بھی ملیں گے، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے نظر آتے ہیں، بس تھوڑی سی توجہ اور مدد خصوصی افراد کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے جیسے ٹانگوں سے یا ریڑھ کی ہڈیوں سے معذور افراد کو وہیل چیئر اور ہر بلڈنگ میں ایسی لفٹ یا سہولت کہ وہ آرام سے چڑھ اتر سکیں۔
اسی طرح گونگے بہروں کے لیے مختلف آلات سماعت دستیاب ہیں کیونکہ بہرے لوگ سن نہیں پاتے اس لیے بول نہیں پاتے لہذا انھیں آلہ سماعت لگا دیا جاتا ہے۔ اشاروں کی زبان بھی آرام سے سیکھی اور سکھائی جا سکتی ہے۔
حکومتی اقدام بھی ایسے ہونے چاہئیں کہ ان معذور افراد کے لیے روزمرہ زندگی میں آسانی اور سہولت ہو، انہیں تعلیم و تربیت اور مختلف علوم اور ہنر میں مہارت دی جائے تاکہ لوگ اپنی مرضی اور آسانی سے وہ شعبہ اپنائیں اور اپنی زندگی خوشگوار طریقے گزار سکیں۔
ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان افراد کو بہتر مستقبل دے سکیں۔ ملازمت میں کوٹہ، خاص قسم کی سواری کی دستیابی، یا دیگر سفر کے ذرائع، مکانات کے کرائے میں کمی، دیگر الاؤنس، میڈیکل فیسلیٹیز، بونس وغیرہ، سیڑھیاں چڑھنے کے دیگر ذرائع تاکہ کسی بھی جگہ معذور افراد آرام سے ہر جگہ پہنچ سکیں۔ کام کی جگہوں پر آٹومیٹک دروازے، واش روم کے استعمال میں انتہائی آسانی، حکومت خاص رعایتی اقدام کرے۔
شناختی کارڈ میں معذوری کا خانہ ہو اور ساتھ ہی میڈیکل بورڈ سے certificate of disability مہیا کیا جائے تاکہ معذوری کی نوعیت معلوم ہو سکے۔ اس کے مطابق چھٹیاں اور سخت کام میں کمی کی جانی چاہیے۔ میڈیکل بورڈ میں طبی ماہرین، ڈاکٹر، سوشل و ویلفیئر ڈپارٹمنٹ اور افسران جو کہ غیرجانبدارانہ رویہ رکھتے ہوئے درست معذوری کی تشخیص کر سکیں۔
آج تک 170 بیماریوں کو معذوری قرار دیا گیا ہے جس کی مختلف نوعیت ہوتی ہے؛ کچھ تو ماہرین کے معائنے کے بعد ہی معلوم ہوتی ہیں۔
حکومتی اقدام کے حوالے سے پاکستان میں خصوصی افراد کے لیے 1981 میں قانون سازی کی گئی کہ معذور افراد کو ملازمت میں کوٹہ مل سکے گا اور ایسے افراد کے بچوں کو سرکاری تعلیم گاہوں میں 75 فیصد اور نجی تعلیم گاہوں میں 50 فیصد رعایت دی جائے گی لیکن اس قانون پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
30 جون 2019 میں 3 رکنی عدالتی بینچ نے خصوصی طور پر خصوصی افراد کو 3 فیصد سرکاری اور نجی اداروں میں فعال کرنے کا حکم دیا اور خاص تاکید کی گئی لیکن پھر بھی کوئی عمل نہیں ہو سکا۔
خصوصی افراد کی مردم شماری بھی درست طریقے سے نہیں کی جاتی کیونکہ 1998 میں معذور افراد کی تعداد 2.5 فی صد تھی لیکن 2017 میں کم جبکہ 2020 میں کل آبادی کا تقریباً 5 فیصد خصوصی افراد ہر مشتمل تھا لہذا اس حساب سے اگر 2022 میں آبادی 25 کروڑ ہے تو ان افراد کی تعداد بھی لگ بھگ 50 لاکھ کے قریب قریب ہو گی۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ معذور افراد کے لیے سہولتیں پیدا کی جائیں لیکن پاکستان میں ایسے افراد کے لیے کوئی جامع قانون موجود نہیں اور جو قانون ہے اس پر جمود طاری ہے، اس پر عمل درآمد کروانے اور خصوصی افراد کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے اسمبلی میں معذور افراد کی موجودگی ضروری ہے، کوئی پارلیمانی ممبر معذور بھی ہونا چاہیے کیونکہ حکومت میں تو ایسے لوگ برسراقتدار ہیں جنھیں عام عوام کے مسائل کا علم ہے نا اندازہ، وہ خصوصی افراد کے لیے خاک کچھ کریں گے!
جہاں بالکل نارمل افراد کی فریاد نہیں سنی جاتی، ان کی امیدوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے تو یہ بے چارے تو ویسے ہی کسی مجبوری کا شکار ہوتے ہیں، ان کی داد رسی کون کرے؟
یاد رکھیے! سب سے پہلی بات "معذور مت کہیے” اور انہیں معذوری کا احساس مت دلائیے؛ والدین، بہن بھائی اور قریبی جاننے والے سب ایسے اشخاص کو عام انسان کی طرح مکمل عزت اور احترام دیں، ایسے افراد کا مذاق نہ اڑایا جائے اور کبھی انہیں بوجھ نہ سمجھا جائے۔
خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں نجی طور پر ایسے بچوں کے لیے جنہیں "ڈاؤن سینڈروم” کا مرض لاحق ہے۔ ان کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا گیا ہے جو ان بچوں کی صحت اور تربیت کا خاص خیال رکھتا ہے: same institution of special education and rehabilitation لیکن ویسے ابھی تک "سپیشل افراد” کو سپیشل نہیں سمجھا جاتا، ان کی تکلیفوں کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، لوگوں میں بھی ان کے ساتھ ہمدردی کے حوالے سے شعور اور سمجھداری نہیں آئی کیونکہ سب سے پہلے بچہ والدین کا رویہ اور سلوک دیکھتا ہے پھر بہن بھائیوں کا، اگر گھر میں ان کے ساتھ ایک تکلیف دہ رویہ روا رکھا جائے گا اور ان کی معذوری کے تدارک کی بجائے انھیں بوجھ سمجھا جائے، ان کی حوصلہ افزائی کی جگہ ان کو قدم قدم پر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے، ان کو ان کی بیماری اور معذوری کے لحاظ سے پکارا جائے جیسے نابینا کو "او اندھے” یا ٹانگ کے حوالے سے "لنگڑے”، اسی طرح "گونگے، بہرے ٹنڈے، ایک آنکھ والے کو کانے” یا آنکھوں میں نقص کی وجہ سے ترچھاپن ہو تو "ٹیرے” کہا جائے تو اس انسان کے دکھ میں اضافہ کرنے والی بات ہے۔
ایک لمحہ سوچیے کہ آج ان کی جگہ اگر آپ ہوتے تو؟ یہ مذہںی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ گرتے ہوؤں کو سہارا دیا جائے، جو پہلے ہی مکمل صحت کے حامل نہیں ان کی زندگی عام لوگوں سے کہیں زیادہ دشوار ہوتی ہے اسے مزید دشوار بننے سے روکیے۔ وہ خاص ہیں، انہیں خصوصی توجہ دیجیے!