لائف سٹائلکالم

انسانیت سے یکجہتی: اک دن نہیں ہر دن منائیں گے!

عبد المعید زبیر

اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں 20 دسمبر کو انسانی یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز 2005 سے ہوا۔ اس کا مقصد قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی مدد، غربت اور تنگ دستی کے خاتمے کے لیے آپس میں اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ جس کے لیے مختلف جگہوں پر بڑے بڑے سیمینار اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں سابقہ رپورٹس پیش کی جاتی ہیں، مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کے لیے سوشل میڈیا پر بھی اسی مناسبت مہم چلتی ہے، لوگوں کے اندر احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں اس پر کوئی خاطرخواہ نتائج دیکھنے کو نہیں ملتے بلکہ ہر روز کسی نہ کسی شرمناک واقعہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ چیز ایک دن کے منانے سے یا صرف پیسے خرچ کر دینے سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے لیے زندہ دلی چاہیے ہوتی ہے۔ اس کے لیے احساس اور اللہ کا خوف چاہیے ہوتا ہے۔ اس وقت اس فقدان کی سب سے بڑی وجہ یہی ہمارے مردہ ضمیر ہیں۔

کہتے ہیں کہ سوئے ہوئے شخص کو جگانا تو ممکن ہے مگر مرے ہوئے شخص کو کیسے جگایا جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے انسانیت کوچ کر چکی ہے، ہمارے دل مردہ ہو چکے ہیں۔ ہر کسی نے اپنے اپنے حساب سے، اپنے اپنے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کی تعریف کر رکھی ہے۔ ہر کوئی خود کو کامل العقل سمجھ رہا ہے۔ دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کو اپنی چالاکی، ہوشیاری اور اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ کسی پر آفت آئے تو احساس کی بجائے اس کی خامیاں تلاش کی جاتی ہیں کہ وہ فلاں برا کام کرتے تھے، ان میں فلاں غلط عادت تھی، اللہ کا عذاب تو آنا ہی تھا۔ حالانکہ ایسے موقع پر دوسروں کو عیب نہیں گنوائے جاتے بلکہ انہیں سہارا دیا جاتا ہے۔ ان کے حالات سے عبرت حاصل کی جاتی ہے۔

حالیہ سیلاب کے موقع پر دسیوں دفعہ یہ سننے کو ملا کہ فلاں علاقے کے لوگ تو مسافروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے تھے، وہ جگہیں تو فحاشی کے اڈے بنی ہوئی تھیں، وہ تو ناجائز کام کر رہے تھے، وہاں تو دین نام کی کوئی چیز نہیں تھی، ان کے اندر تو فلاں فلاں گناہ بہت عام تھا وغیرہ وغیرہ۔ سوچیے! کیا اس سے بھی زیادہ ہم مردہ دل ہو سکتے ہیں کہ ہم ان کو آزمائش کا حق دار ٹھہرا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا۔ خود یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اب ہمارا بھی امتحان شروع ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ ہم ایسے وقت میں کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ دن تو بدلتے رہتے ہیں، کل ہمیں آج کے عمل کا انجام بھی دیکھنا پڑے گا۔

جہاں ہمارے اندر اکثریت دل کھول کر تعاون کرتی ہے، وہیں ایسے مواقع پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگوں کا قیمتی سامان کھو جاتا ہے۔ جو کوئی امداد آ رہی ہو، اسے لوٹ لیا جاتا ہے۔ یہی مسئلہ ہمارے معاشرے اور ہر ہر محلے میں ہے۔ گھر یا دکان میں کسی کو تنخواہ پر ملازم رکھ لیا تو سمجھتے ہیں گویا اسے خرید لیا، اب اسے سانسں لینے کی بھی اجازت نہیں، اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں، اسے کوئی چھٹی نہیں، کوئی کام خراب ہو جائے تو اس کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ آفس یا ادارے میں کام کرنے والوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ، نوکری سے نکال دینے کی دھمکی اور ہتک عزت کا تو کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔

گھر میں ساس بہو کے مسائل جو شاید ازل سے ہیں، ابد تک رہیں گے، کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ کہیں ساس کی زبان نہیں رکتی تو کہیں بہو کی، کہیں ماں کو بیٹے کا بہو سے پیار برداشت نہیں ہوتا تو کہیں بیوی کو شوہر کا ماں سے پیار اور خیال نہیں دیکھا جاتا۔ ہر کسی کی بیٹی مظلوم اور ہر کسی کی بہو ظالم اور بری ہے، اور ہر کسی کی ساس ظالم اور ماں مظلوم ہے۔

دہرے افسوس کی بات یہ کہ معاشرے کا ہر فرد دین کی، برابری کی، احساس کی بات کرتا نظر آتا ہے کیونکہ ہر کسی نے اپنا اپنا دین بنا رکھا ہے، احساس کی اپنی اپنی تعریف کر رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کی دو رخی بھی ملاحظہ کیجیے۔ ایک طرف عالمی سطح پر انسانی یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کر رہا ہے تاکہ ایک دوسرے کا احساس پیدا ہو سکے، ایک دوسرے کی مدد کر سکیں، ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔ تو دوسری طرف عرصہ دراز سے کشمیر، فلسطین، شام، عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ نہ کوئی روک تھام اور نہ ہی کوئی ایکشن۔

انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار امریکہ کئی ممالک پر ناجائز جنگ مسلط کر کے بیٹھا ہے، کہیں دوسروں کے خزانوں پر قبضہ کے لیے تو کہیں مسلم قوتوں کو کچلنے کے لیے۔ خود اس کے اپنے ملک میں کروڑوں لوگ غربت کی کم ترین سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن میں اکثر سیاہ فام لوگ ہیں۔ ان کے درمیان یکجہتی پیدا کر کے غربت کا خاتمہ کرنے کی بجائے اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں سے ہتھیار فروخت کر کے اپنی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔ اب خود اندازہ لگائیے جس کی معیشت کا انحصار اسلحہ ساز کمپنیوں پر ہو، وہ دنیا میں امن یا انسانیت کی بات کیسے کر سکتا ہے؟

دین اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے چودہ سو سال قبل انسانیت کی بات کی۔ حتی کہ جانوروں کے حقوق کی بھی بات کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاتے وقت میں جن چیزوں کی تلقین کر کے گئے ان میں سے ایک ماتحت لوگ بھی ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ یہاں ہمارے لیے بھی یہی سبق ہے کہ جو ہمارے تابع ہیں یا جو کمزور ہیں، ان پر سب و شتم کی بجائے ان کے ساتھ میانہ روی کا معاملہ اختیار کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ "ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم” کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے مکرم وہی ہو گا جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو گا۔ یہی انسانیت کے لیے بہت بڑا درس ہے، دوسروں پر ظلم کرتے ہوئے ڈرنا، دوسروں کو آزمائش میں دیکھ کر عبرت حاصل کرنا اور ان کی مدد کرنا، دوسروں کی عزت نفس اور دل آزاری سے بچنا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

کسی کا دل دکھانا، کوئی تکلیف پہنچانا چاہے کسی بھی طرح ہو یہ کبیرہ گناہ ہے۔ مگر ہم اسے کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ بلکہ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ "میں نے تو ویسے ہی تھوڑا سا کچھ کہا، اس نے تو منہ ہی بنا لیا۔”

حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان کی حفاظت پر جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور ہم اسے بےدریغ استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔” جو چیز مالک پسند کرتا ہے اگر وہی چیز ملازم کے لیے پسند کرے تو کیسے سکون ممکن نہیں ہو سکتا۔ کیسے گھر یا کاروبار میں برکت ممکن نہیں ہو سکتی، جو چیز ساس اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتی ہے، اگر وہی چیز بہو کے لیے پسند کرے یا جو چیز بہو اپنی ماں کے لیے پسند کرتی ہے، وہی اپنی ساس کے لیے پسند کرے تو کیسے نا ہمارے گھروں میں سکون ہو جائے، لڑائی جھگڑے اور فساد ختم ہو جائیں بلکہ امن سکون کا گہوارہ بن جائیں۔

اسی طرح دوسرے کو بھوکا دیکھ کر، تنگ دست دیکھ کر، پریشان دیکھ کر اگر اس کے غم میں شریک ہوا جائے، اس کی مدد کی جائے، اس کی دادرسی کی جائے تو پورا معاشرہ ہی بدل جائے۔ یہی انسانیت کہلاتی ہے اور یہی پیغام خداوندی ہے۔

آئیے! عہد کرتے ہیں کہ انسانیت کی یکجہتی کا ایک دن منانے کی بجائے ہر دن منائیں گے تاکہ ہمارے اندر احساس پیدا ہو؛ غربت، تنگ دستی، پریشانی اور مسائل کا خاتمہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہو۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button