پی آئی اے: کل پاکستان کی پہچان آج سفید ہاتھی بن چکی!
حمیرا علیم
آج انٹرنیشنل ایوی ایشن ڈے ہے۔ پاکستان جو کبھی اپنی جس سرکاری ائیرلائن کے لیے مشہور تھا آج وہ اک سفید ہاتھی بن چکی ہے۔ جس کے پاس ناکارہ جہاز اور جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس ہیں۔ جس کی پروازیں کئی کئی گھنٹے لیٹ ہوتی ہیں اور سروس اتنی بیکار کہ لوگ پیدل چلنے کو ترجیح دیں۔
میرا پہلا ہوائی سفر شادی کے بعد کوئٹہ سے اسلام آباد کیلئے تھا اور خاصا عرصہ پہلے کا تھا اس لئے کچھ خاص یاد بھی نہیں۔ جاب کی وجہ سے مجھے یکم اگست کو اسلام آباد پہنچنا تھا مگر برا ہو کوئٹہ کے موسم کا، جولائی کے آخری ہفتے سے جو مٹی اڑنا شروع ہوئی اور گردوغبار کا طوفان برپا ہوا تو اگست کے دوسرے ہفتے میں بھی جاری رہا۔ اگرچہ میری ٹکٹ تو جولائی کی 28 تاریخ کی تھی مگر خراب موسم کی وجہ سے پرواز ممکن ہی نہ تھی لہذا فون پہ اطلاع دے کر چھٹی بڑھا لی۔ خدا خدا کر کے اگست کی 17 تاریخ کو پی آئی اے کی ٹکٹ لی چونکہ ایمرجنسی تھی اس لیے جس بھی کلاس کی سیٹ دستیاب تھی وہ بک کروا لی۔ ایگزیکٹو کلاس کی ٹکٹ ملی تو شکر کیا۔
گھر میں موجود سیب اور انار کے دو کریٹس اور اپنا ہولڈال اٹھایا اور ایئرپورٹ پہنچ گئی، میاں کو الوداع کہا اور لاؤنج کی طرف چل دی۔ کوئٹہ کا ائیرپورٹ نہایت ہی مختصر اور سادہ سا تھا؛ چھوٹی سی انٹرنس، چیکنگ ایریا اور بورڈنگ پاس کاؤنٹر پھر چند سیڑھیاں چڑھ کر ایک ویٹنگ لاؤنج، اب تو یہ خاصا بہتر بنا لیا گیا ہے۔
چونکہ ڈیڑھ گھنٹے پہلے ائیر پورٹ پہ پہنچ گئی تھی اس لیے ائیرپورٹ کو دیکھنے لگی؛ خشک موسم، تپتی دوپہر، پتھریلے پہاڑ اور اکا دکا درخت، چند ائیرفورس کے جہاز اور ایک پی آئی اے کا جسے ہم مسافروں کو اسلام آباد پہنچانا تھا۔مگر جانے کیا فنی خرابی تھی کہ ٹھیک ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ ہر گھنٹے بعد پی آئی اے کا عملہ ہمیں یہ گولی دے دیتا کہ بس ایک گھنٹے بعد جہاز روانہ ہو جائے گا۔
میاں، نند، امی، بھائی سب کے فون پہ فون آ رہے تھے کہ کہاں ہو؟ ہر ایک کے فونز اٹینڈ کر کر کے تھک گئی تو کہہ دیا
"جب پلین میں بیٹھوں گی تو فون کر دوں گی۔”
سب مسافروں کا برا حال تھا خصوصاً بچوں والے جو فیڈرز اور دودھ کا بندوبست کر کے نہیں چلے تھے کہ ڈیڑھ گھنٹے میں فلائی کرنا تھا اور ایک گھنٹہ دس منٹ میں منزل پہ پہنچ جانا تھا۔ مگر اس افتاد کا تو اندازہ ہی نہ تھا۔ اللہ اللہ کر کے سات گھنٹے بعد کراچی سے پرواز آئی تو ہمیں اس میں سوار کروایا گیا۔ جہاز میں بیٹھ کر سب کو خوشخبری دی کہ مابدولت آخرکار جہاز تک پہنچنے کی مہم سر کر چکے ہیں۔ انشاءاللہ اگلے دو گھنٹوں میں گھر پہنچ جائیں گے مگر یہ بھی ہماری بھول ہی تھی۔
ایک ائیرہوسٹس نے احتیاطی تدابیر بتائیں کہ اگر ایمرجنسی ہو جائے یا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو آکسیجن ماسک کیسے استعمال کرنا ہے، نشست پہ کس پوزیشن میں بیٹھنا ہے اور ایمرجنسی ایگزٹ کیسے استعمال کرنی ہے۔ اس کے بعد پائلٹ نے اپنا تعارف کروایا، سفر کی دعا پڑھی اور آلٹیٹیوڈ وغیرہ کی معلومات دیں۔ سیٹ بیلٹس باندھنے اور موبائل لیپ ٹاپس وغیرہ آف کرنے کا کہا اور محفوظ سفر کی دعا دیتے ہوئے اطلاع دی کہ چند منٹس میں ہم ٹیک آف کر جائیں گے۔
سب نے ہدایات پہ عمل کرتے ہوئے سیٹ بیلٹس باندھ لیں، گیجٹس آف کر دیئے اور پائلٹ نے پلین ٹیکسی کیا اور ٹیک آف کر لیا۔ میں نے پلین موڈ پہ موبائل کر کے ٹیک آف کی ویڈیو بنائی کہ نہایت ہی سمود اور ایزی ٹیک آف تھا۔ فضا میں پہنچ کر نیچے دیکھا تو سوائے کالے اور مٹیالے قطعہ زمین کے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا سو بادلوں کو دیکھنے کو ترجیح دی، کچھ خوبصورت مناظر کو موبائل میں قید کیا۔ اتنے میں ائیرہوسٹسز ریفریشمنٹ لے کر چلی آئیں۔
ایگزیکٹو کلاس میں ذرا سا الگ پروٹوکول تھا۔ پہلے ویٹ نیپکنز دیئے گئے۔ پھر نیوز پیپرز پھر پانی اور پھر ریفریشمنٹ مگر ریفریشمنٹ دیکھ کر پی آئی اے کے کھانوں اور سروس پہ بنے سب لطیفے یاد آ گئے اور ان کے سچ ہونے پہ یقین بھی ہو گیا۔
ایک نہایت چھوٹے پیپر کپ میں ہاف کپ کولڈ ڈرنک، ایک نہایت سلم اسمارٹ اور چنا منا سا کیک سلائس، ایک کریسانٹ croissant جس میں نہایت بدمزہ بٹر لگا ہوا تھا، ایک مایونیز والا ہاف سینڈوچ! مجھے چونکہ ڈیری پراڈکٹ پسند ہی نہیں ہیں اس لئے صرف کیک اور کولڈ ڈرنک پہ گزارا کیا۔ اور جب چائے یا کافی کا آپشن آیا تو بلیک کافی لی کیونکہ دودھ والی کافی یا چائے میں پیتی نہیں۔
آدھا سفر گزرا تو پائلٹ نے پھر اناؤنس کیا کہ اب ہم کتنی بلندی پر ہیں اور کب تک اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ سامنے لگی اسکرین پر سب چیزیں ڈسپلیڈ تھیں مگر پائلٹ اپنی ڈیوٹی پوری کر رہا تھا۔
چند منٹس کے بعد جہاز کو جھٹکے لگنے شروع ہو گئے۔ پہلا سفر تھا مگر بہت سی کتب پڑھنے کی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ بس ہلکے سے جھٹکے ہی ہوں گے کوئی بڑی خرابی نہیں ہو گی۔ پائلٹ نے بھی سب کو تسلی دی مگر کچھ مسافر خوفزدہ نظر آ رہے تھے، چند ایک نے تو کلمہ پڑھنا شروع کر دیا جن کی دیکھا دیکھی سب نے کوئی نہ کوئی دعا پڑھنی شروع کر دی۔ میں چونکہ سفر کے آغاز سے ہی مسنون دعائیں اور سفر کی دعائیں پڑھ چکی تھی اس لئے صرف تکبیر اور کلمہ ہی پڑھا۔
چند لمحوں بعد جہاز نارمل طریقے سے پرواز کرنے لگا اور اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو گیا۔ نیچے نظر کی تو دل خوش ہو گیا۔ ہوم سویٹ ہوم! سرسبز قطعے، خوبصورت اسکائی سکریپرز، جھیل اور رہائشی عمارات، جلدی سے موبائل نکالا دھڑا دھڑ تصاویر بنائیں اور لینڈنگ کی ویڈیو بنائی۔ (یقیناً موبائل فلائٹ موڈ پہ ہی رہا ساری فلائٹ میں) جونہی پلین رکا سب نے سامان اٹھایا اور جہاز سے نکل کر کوچ میں بیٹھے اور ایئرپورٹ تک پہنچے (پرانے ائیر پورٹ کی بات کر رہی ہوں نئے میں تو جیٹ وے (پیسنجر بورڈنگ برج) کے ذریعے ائیرپورٹ میں پہنچ جاتے ہیں)۔ اپنا اپنا سامان اٹھایا اور باہر نکلے۔ شکر ہے بھائی باہر موجود تھا گاڑی میں بیٹھے اور گھر پہنچے۔
دنیا بھر میں لوگ بذریعہ پرواز سفر کرتے ہیں تاکہ جلدی منزل مقصود پہ پہنچا جا سکے مگر ہم نے جب بھی کوئٹہ سے کسی بھی ہوائی ائیرلائن کا سفر کیا تبھی سوچا بس یہ آخری بار ہے اب نہیں جانا جہاز سے۔ شاہین سے جانے لگے تو 14 گھنٹے لیٹ، پی آئی اے سے گئے تو 17 گھنٹے لیٹ، سرین سے گئے تو دو گھنٹے لیٹ، نجانے ان سب کو ہم سے ہی کوئی دشمنی تھی یا عموماً بھی کوئٹہ ٹو اسلام آباد پروازیں اتنی ہی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں کہ دنیا بھر سے ہمارے رشتے دار اسلام آباد پہنچ کر ہمارا انتظار کرتے رہے اور ہم اتنے گھنٹے لیٹ پہنچتے رہے۔
مگر ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنی انہی ائیر لائنز کے محتاج ہیں دوسرا کوئی آپشن ہمارے پاس ہے نہیں۔ اور ٹرین ہو یا پلین سبھی اپنی مرضی سے سفر کرنے کے عادی ہیں لہذا ہم ایک اچھے مسلمان کی طرح دوران سفر صبر کرتے ہیں اور اجر پاتے ہیں۔