حمیرا علیم
کہتے ہیں اللہ تعالٰی عدالت اور ہاسپٹل کامنہ کسی کو نہ دکھائے لیکن اکثر ہر شخص کو ان دونوں جگہوں کی زیارت کرنی ہی پڑتی ہے، خصوصا ہاسپٹل کی بچوں والے والدین تو بکثرت ہاسپٹل جاتے رہتے ہیں لیکن بعض اوقات بڑوں کو بھی کسی بیماری کے باعث ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونا پڑتا ہے۔ میری والدہ پچھلے 22 سال سے شوگر پیشنٹ ہیں اور ٹیپیکل پاکستانی خواتین کی طرح اپنی کئیر سے غافل رہتی ہیں۔ کبھی کھانا نہیں کھاتیں تو کبھی دوا وجہ گھر کے کاموں میں مصروفیت ہوتی ہے ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں لیور سورائسس ہو گیا۔
ان کے اینڈوکرائنالوجسٹ نے انہیں دوا دی کہ اسی سے ٹھیک ہو جائیں گی لیکن جب پندرہ دن تک کوئی فرق نہیں پڑا تو انہیں سی ایم ایچ لے گئے بریگیڈئر ڈاکٹر نے انہیں ایڈمٹ کر لیا، اسٹاف میں نرسنگ سے لے کر سوئپریس تک سب جنرل تھیں۔ اگر نرسز کو کینولا پاس کرنے یا ڈرپ لگوانے کے لیے بلایا جاتا تو وہ اپنی مرضی سے تشریف لاتیں۔ امی موو نہیں کر سکتیں تھیں اس لیے ڈائپر استعمال کر رہے تھے مگر ان کا اصرار تھا کہ واش روم ہی جائیں گیں اور ڈرپس کی وجہ سے ہر پندرہ منٹ بعد واش روم جانا پڑتا تھا۔ اسٹاف بار بار بلانے پر کچھ مائنڈ سا کر جاتا تھا لیکن ہماری بھی مجبوری تھی اگرچہ ڈائپر کرنا، ویل چیئر پر انہیں واش روم لے جانا نرس کا کام تھا مگر یہ سب ہم خود کر رہے تھے۔
واش روم میں سیٹ کموڈ کا فلش خراب تھا اور فرش گندا تین دن تک مسلسل ڈاکٹرز، نرس اور سوئپرز کو کہتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ جب سنیئر اسٹاف سے بات کی تو جواب ملا:” یہ ہمارا کام نہیں جن کا کام ہے انہیں بتا دیا گیا ہے اور یہ پورے ٹاور کا مسئلہ ہے۔”
ایک ٹاور میں چار فلورز ہوتے ہیں جن میں چند کمرے اور چار وارڈز ہوتے ہیں۔ مستقل کہنے کے باوجود نہ تو فلش ٹھیک ہوا اور نہ ہی فلور صاف تو میری بھانجی نے سوئپرس کو ہزار روپے دے کر صفائی کا بولا جس پر اس نے سنکس والے ایریا میں فنائل انڈیلی اور اس پر موپ کر دیا۔ ریسٹ روم کا گند وہیں رہا۔ جب دوبارہ اس خاتون سے صفائی کا بولا تو فرمانے لگیں:” اب دوسری سوئپرس کی ڈیوٹی ہے اس سے کہیں۔” اور چل دیں۔ یعنی ہزار روپے میں بس اتنا ہی ہو سکتا تھا۔اب اگر کچھ اور کروانا ہے تو دوسری کو بھی ہزار روپے کا نذرانہ پیش کریں۔
رات کو امی کو واش روم لے جانا تھا۔ڈرپ بند کر کے نرس کو ڈھونڈا تو کسی جگہ نظر نہ آئیں۔ان کی تلاش میں سب وارڈز کا جائزہ لیتے لیتے اسٹاف روم تک پہنچی تو اچانک سوئپرس سامنے آ گئیں:” آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟”
” آپ کے خیال میں میں کوئی چیز چرانے کے لیے کوریڈور میں پھر رہی ہوں کیا؟؟؟” مارے غصے کے کنٹرول نہ کر پائی تو کہہ ہی دیا۔” نرس سے ڈرپ اتروانی ہے اور وہ کہیں نظر نہیں آ رہیں اس لیے انہیں ڈھونڈ رہی ہوں۔” اس پر نہایت غصے سے بولی:” آپ چلیں وہ آ جائیں گی۔”
” اتنی دیر میں چاہے پیشنٹ یورین پاس کر دے!” یہ کہہ کر میں نے اسٹاف روم کا دروازہ ناک کیا تو اسٹاف سو رہی تھیں۔ان سے ڈرپ اتروائی اور وارڈ کے واش روم میں لے کر گئی کیونکہ وہ واش روم صاف اور ٹھیک تھا۔جونہی ویل چیئر واش روم میں داخل کی سوئپرس کم جنرل بھاگم بھاگ پہنچیں اور تفتیش شروع کر دی:” انہیں یہاں کیوں لائی ہیں؟”
” آپ کے خیال میں ٹوائلٹ میں مریض کو کیوں لاتے ہیں؟”
جواب پر فرمانے لگیں:” میرا مطلب ہے ان کے کمرے کے ساتھ بنے ریسٹ روم میں کیوں نہیں لے کے گئیں۔”
” کیونکہ وہ بیحد گندا ہے اور بار بار کہنے کے باوجود نہ تو صاف کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا فلش ٹھیک کیا گیا ہے۔”
آوازیں سن کر نائٹ ڈیوٹی والی نرس پہنچ گئیں اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو سوئپرس نے بڑے طنزیہ انداز میں فرمایا:” واش روم بیحد گندا ہے۔”
دل تو چاہا کہ کھری کھری سنا دوں مگر صرف اتنا ہی کہا:” اگر صاف ہوتا تو مجھے کوئی شوق نہیں تھا کہ پیشنٹ کو اتنی دور لے کر آتی۔” جس پر دوبارہ بڑے رعب سے فرمانے لگیں :” میں نے آپ سے کچھ کہا ہے؟”
یہ تو حال تھا ان سویلین پیشنٹس کا جو لاکھوں روپے دے کر سی ایم ایچ میں علاج کی غرض سے آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فوجی ہاسپٹل صاف اور بہتر ہو گا مگر یہاں بھی سول ہاسپٹلز والا ٹریٹمینٹ ہی پایا۔ ذرا تصور کیجئے ان سپاہیوں کا جو حاضر سروس ہیں یا ریٹائرڈ ان کے ساتھ اسٹاف کیا کرتا ہو گا۔صبح ڈاکٹر کی وزٹ پر ان سے شکایت کی تو انہوں نے اسٹاف کو تاکید کی کہ وہ پیشنٹ کو ڈائپر بھی چینج کروائیں اور واش روم بھی لیجائیں۔ان کے سامنے تو یس سر یس سر کی گردان جاری رہی مگر ان کے جانے کے بعدسب غائب ہو گئے۔ڈاکٹر نے تین دن بعد ڈسچارج کر دیا کہ ہاسپٹل میں ڈینگی کا خطرہ ہے اب اور میڈیسن ہے اس لیے گھر لے جائیں۔
مزے کی بات یہ کہ وہ ساری نرسز اور سوئپرسز جو ان تین دنوں میں بار بار بلانے پر اور بریگیڈیئر صاحب کی تاکید کے باوجود کہیں نظر نہیں آتیں تھیں ڈسچارج ہونے کی خبر سنتے ہیں بیڈ کے اردگرد ایسے چمٹ گئیں جیسے شہد کی مکھیاں شہد سے اور لگیں دعاوں کے ڈھیر لگانے یہ بھیڑ اسی وقت چھٹی جب انہیں دو دو ہزار کا نذرانہ پیش کیا اور یہ بھتہ انہوں نے زبردستی وصول کیا کیونکہ کم از کم میں تو ان میں سے کسی سے بھی مطمئن نہیں تھی۔بھائی چونکہ صرف دن میں چند گھنٹوں کے لیے آتے تھے لہٰذا انہیں کچھ پتہ ہی نہ تھا کہ اسٹاف کیسا ہے۔
جہاں تک بات ہے ڈاکٹرز کی تو امی کے اپنے اینڈوکرائنالوجسٹ نے انہیں معدے کی دوا دی جس سے کوئی فرق نہیں پڑا تو سی ایم ایچ لے کر گئے۔بریگیڈیئر صاحب نے ٹیسٹس کے بعد فرمایا :” لیور ٹرانسپلانٹ ہو گا۔”
لیکن جب پوچھا کہ پھر میڈیسن کس چیز کی دے رہے ہیں تو فرمانے لگے:” ان کو نہ تو ہیپاٹائٹس بی ہے نہ ہی سی۔اس لیے ان میڈیسنز سے 90% ٹھیک ہو جائیں گی۔” عجیب کنفیوزڈ ڈاکٹر تھے۔بہرحال مرتے کیا نہ کرتے والدہ کو گھر لے آئے۔بارہ دن سے دوا بھی کھلا رہے ہیں ویکلی بلڈ ٹیسٹس بھی کروا رہے ہیں مگر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔
کیونکہ دونوں ڈاکٹر صاحبان نے بی پی، شوگر، کولیسٹرول اور لیور کی وجہ سے نمک، مرچ، ہر طرح کا گھی، آئل، ڈیری پراڈکٹس، گوشت تو منع فرما دئیے ہیں۔ اب ہم پریشان ہیں کہ کیا کھلائیں؟ فروٹس وہ کھا نہیں رہیں۔دالیں ، سبزیاں جو ڈاکٹرز نے کھانے کو بولا ہے اسٹیمڈ یا بوائلڈ ہیں بنا نمک مرچ مصالحے کے۔ اب ایک ایسا پاکستانی جس نے ساری زندگی گھی مصالحوں میں بھنے تلے کھانے کھائے ہوں وہ کیسے ابلی یا اسٹیمڈ بنا نمک مرچ کے سبزیاں دالیں یا انسٹنٹ پورجز بغیر دودھ چینی کے کھائے۔
لہذا امی کا ہر کھانے پر انکار ہی ہوتا ہے چنانچہ بھائی سے کہہ کر لو سوڈیم سالٹ اور سوئٹنر منگوائے اور کھانے میں ڈال کر دئیے جس پر ناک بھوں تو خاصی چڑھائی امی نے مگر شکر ہے کھا لیتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایک دو چمچ کھانے لگی ہیں لیکن کمزوری ہے اور لیور سورائسس کی وجہ سے اب ہر ماہ پیٹ سے پانی بھی نکلوانا پڑے گا۔ اس لیےقارئین سے التماس ہے کہ ان کی صحت کے لیے دعا کیجئے گا۔