سیلاب زدگان ابھی تک بے یار و مددگار ہیں!
ڈاکٹر سردار جمال
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فطرت کے قانون کے تحت جب تک یہ دنیا آباد رہے گی تو اس دم تک کرہ ارض پر رہنے والے تمام اجسام قدرتی آفات سے کبھی کبھار دوچار ہوتے رہیں گے، مگر سطح زمین پر رہنے والوں میں سے صرف انسان کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر آفت کے آنے کے بعد اپنے آپ سے چند سوالات کیا کرے۔
اول سوال یہ کہ آفت کیوں آئی، آفت نے جو تباہی مچائی اس کا ازالہ کیسے کیا جائے گا اور آئندہ کی آفات سے بچنے کے لئے ہمیں کون سے اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ مستقبل میں حادثات سے بچا جا سکے؟
چونکہ ہم غفلت زدہ قوم ہیں یہی وجہ ہے کہ مصیبت کے وقت شور اور واویلا تو خوب کرتے ہیں مگر مصیبت تھم جانے کے بعد ہم دوبارہ خواب غفلت میں پڑ جاتے ہیں اور ہم ایسا تصور کر لیتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کا آخری غذاب تھا جو ٹل گیا اور پھر کبھی بھولے سے بھی ہمارا سامنا نہیں کرے گا۔
ویسے تو ہم سال میں کئی بار مختلف قسم کی تکالیف اور آفات کا سامنے کرتے رہتے ہیں مگر میں ادھر گذشتہ سیلابوں کے بارے میں تھوڑا بہت عرض کروں گا اور وہ یہ کہ اس سال یعنی دو ہزار بائیس ہی میں ملک کے زیادہ تر حصے سیلابوں سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں بلوچستان، سندھ اور پختونخوا کے علاقے شامل ہیں۔
سب سے پہلے سیلاب کی صورت میں آفت بلوچستان پر آن پڑی، جس نے کئی گاؤں اور دیہاتوں ملیامیٹ کر کے رکھ دیا، جس وقت بلوچستان ڈوبا ہوا تھا تو ملک کے دوسرے خطوں کے لوگ سیاسی سکورنگ میں مصروف تھے، بعض سیاسی حضرات اور تجزیہ نگار اس سب کچھ کو غفلت اور لاپرواہی قرار دے کر بلوچستان حکومت کے کھاتے میں ڈال رہے تھے۔
ابھی یہ الزام تراشیاں جاری و ساری تھیں کہ اسی اثناء میں سندھ کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، ہوا یہ کہ اب تجزیہ نگاروں کی توپوں کا رخ سندھ کی طرف مڑ گیا اور میڈیا سارا بھٹو، جئے بھٹو جیسے طنزیہ نعروں سے گونج اٹھا اور کہا گیا کہ چونکہ بھٹو زندہ ہے اس لئے سندھ پانی میں ڈوب گیا۔ یہ نعرے ابھی گونج رہے تھے کہ پختونخوا سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا اور پھر پی ٹی آئی حکومت کو آفت آنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
تنقید کی حد تک تو بات ٹھیک تھی کہ حکومتی مشینری غیرمتحرک ہونے کی بدولت اس ملک کے باسی مختلف قسم کے مصائب میں جکڑے ہوئے ہیں مگر ایک ملک کے مہذب شہریوں کا شیوہ بنتا ہے کہ جب مصیبت آن پڑتی ہے تو ایسے حالات میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مصیبت زدہ لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہیے اور ہنگامی بنیادوں پر مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہیے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ایک تو ہمارے پاس پہلے سے سہولیات کا فقدان ہوتا ہے اور دوسری طرف ہم کچھ کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری مصیبتیں دوگنی اور چوگنی ہو جاتی ہیں۔
جہاں تک پچھلے سیلابوں کی بات ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم آنے والی آفات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں، اگرچہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں پر پشتے باندھنا چاہئیں اور کہاں کہاں پر ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ بارشوں کے دوران برساتی نالوں سے محفوظ رہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ مصیبت کے اوقات میں، خاص کر سیلابوں کے دوران ہمارے پاس اتنے وسائل ہونے چاہئیں جن کی مدد سے مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہم بچا سکیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ہر وقت اشیائے خوردونوش کا اتنا سٹاک ہونا چاہیے جو بوقت ضرورت لاکھوں بندوں کے لئے کافی ہو۔
اگر گزرے ہوئے سیلابوں کے بارے میں سوچا جائے تو اس بارے بحیثیت قوم ہم سیلاب زدگان کے سامنے پشیمان ہیں، وہ ایسے کہ جب سیلابوں کی صورت میں قیامت آن پڑی تھی تو اس وقت سیاسی حضرات، آفیسرز صاحبان اور ملک کے دوسرے فلاحی اداروں کے صاحبان تو اچھی طرح فوٹو سیشن میں مصروف تھے اور کبھی کبھار مختلف قسم کے پیکجز بھی اعلان کرتے تھے مگر سیلاب زدگان ابھی تک اسی حالت میں پڑے ہوئے ہیں، متاثرہ لوگ ابھی تک بے گھر ہیں، وہ ابھی تک وسائل کے بغیر کھلے آسمان زندگیاں بسر کر رہے ہیں، ان کے سارے سامان، مال دولت اور مویشیاں پانی میں بہہ گئے ہیں، ان کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور ان کی کھیتی باڑی کی زمینیں ناقابل کاشت ہو گئی ہیں، ان کے بچے سکولوں سے محروم ہو چکے ہیں لہذا ان متاثرہ لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کے سلسلے میں عملی طور کچھ کرنا چاہیے اور ان کے ناموں پر جمع کئے گئے چندوں کو ان بے بس لوگوں کی فلاح کے لئے استعمال کیا جائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر دوبارہ زندگی بسر کرنے کے قابل بن سکیں۔