مشرقی خاندانی زندگی
سردارجمال
استاد محترم پروفیسر اظہارالحق خاندانی اور اشتراکی طرز زندگی کے بارے میں کچھ اس طرح قلم دراز ہے کہ ”ہمارے ہاں ایک مضبوط خاندانی نظام موجود ہے، اس کو سبوتاژ ہونے سے بچانا ہوگا اس خاندانی نظام کو أپ ایک چھوٹی سی ریاست تصور کرلیں. جسمیں میاں, بیوی, بچے اس ریاست کے مستقل ارکان اورشہری ہوتے ہیں اس ریاست کو خوشگوار انداز میں چلانے کے لیے شوہر کے کندھوں پر زیادہ ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں وزارت خزانہ, + وزارت خارجہ اور دفاع کا قلم دان شوہر کے پاس ہوتا ہے، ریاست کے تمام اخراجات شوہر کے ذمے ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے اس کو میراث میں دگنا حصہ دیا گیا۔
بیوی اس قسم کے دردسر سے 100 فی صد بالکل فارغ. , بیوی کو کچن کا مکمل اختیار اور وزارت داخلہ دیا گیا ہے اور اس ریاست کے باقی جملہ امور مشاورت سے طے کیے جاتے ہیں مثلا اگلا بچہ کب اس ریاست کا ممبر بننا چاہیے، بچے کا کس سکول میں داخلہ مناسب رہے گا وغیرہ. یہاں دونوں کے ووٹ بالکل برابر حیثیت رکھتے ہیں، یوں بڑے مقدس انداذ میں باہمی مشاورت سے ریاست کے امور رو بعمل رہتے ہیں اور ہنسی خوشی زندگی گزرتی رہتی ہے، اب خدا نخواستہ اگر کسی مرحلے پر کسی بھی وجہ سے ریاستی امور میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے، بات بنتی نظر نہیں أتی تو اس کا حل خاوند کے پاس طلاق اور بیوی کے پاس خلع کا حق موجود ہے مگر کسی قسم کے تشدد, دل أزاری اور گالم گلوچ کی ہمارے دین نے پھر بھی ممانعت کی ہے.
اب آپ بتا دیجیے کہ اس نظام میں کسی کو کہاں اور کیا پریشانی ہو سکتی ہے، اب ذرا ان لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں خاندانی نظام کمزور ہو چکا ہے کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں.افراط وتفریط تو ہر جگہ نا پسندیدہ عمل ہے، اصلاح کاعمل جاری رہنا چاہیے، اپنی مشرقی اور اسلامی اقدار کو نہ بھولیے، ہمارے ہاں بھی جگہ جگہ بعض ناخوشگوار صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے مگر پھر بھی میرا مشورہ یہی ہوگا.. ,, سر درد کاعلاج سر کاٹنا نہیں., علاج کے طور پر دوائی لینا اور پرھیز کے طور پر کچھ چیزوں کو چھوڑنا پڑے گا.. معاشرتی اور کلچرل مسائل کے باعث نظام کو موردالزام نہ ٹھرائیں وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی، علاج اسکا وہی أب نشاط انگیز ہے ساقی“
چونکہ استاد محترم مذہبی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر سماجیات بھی ہیں،اس لئے اس بارے آپ کا وژن اپنی مثال آپ ہے،محترم صاحب خاندانی طرزندگی کا قائل ہے اور خاص کر وہ اس قسم کے طرز زندگی میں عائلی طرز زندگی کو سراہتا ہے اور وہ دلیل کے ساتھ ثابت کرتا ہے کہ اس قسم کی طرز زندگی میں شوہر اور بیوی دونوں اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں،دوسری طرف اگر خدا ناخوستہ میاں، بیوی کے درمیان کسی قسم کی ناچاکی درمیان میں آجائے تو سب سے پہلے پیدا شدہ ناچاکیاں بہت آسانی سے حل کی جاسکتی ہے اور اگر وہ ناچاکی ناقابل تلافی ہو تو پھر میاں بیوی کے درمیان جدائی طلاق کے ذریعے لائی جاتی ہے۔
بیشک خاندانی طرز زندگی جتنی سادہ تھی تو اتنا ہی یہ زندگی مضبوط تھی، جب سے خاندانی زندگی مختلف قسم کے ازمز سے دوچار ہوئی ہے تو اسی دن سے خاندان کے افراد کے درمیان زندگی بہت کمزور پڑ چکی ہے، اب گھر میں پیدا شدہ معمولی معمولی تنازعات جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو ان معمولی تنازعات میں باہر کے دوسرے افراد یا مختلف ادارے دخل اندازی کر کے بات سے بھتنگڑ بنا کر معمولی سا مسلہ بہت بڑے مسلے کی شکل اختیار کر دیتی ہے۔
ہماری جو مشرقی خاندانی طرز زندگی تھی تو وہ اپنے اندر بیش بہا ثمرات رکھتی تھی، اول یہ کہ جہاں رشتے مضبوط ہو تو وہاں انسانی اقدار مضبوط ہوتے ہیں اور جہاں انسانی اقدار مضبوط ہو تو وہاں رہنے والوں کے درمیان پیار و محبت موجود ہوتی ہے اور جہاں زندگی پیار و محبت سے معمور ہو تو وہاں کے بسنے والے عزت نفس عروج کے ساتھ زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور جہاں لوگ عزت سے زندگیاں بسر کر رہے ہو تو وہاں آنا ناپید ہوتی ہے اور جہاں آنا نہ ہو تو ادھر امن ہوتا ہے،جہاں امن ہوتا ہے تو ادھر سکون ہوتا ہے اور جہاں سکون ہوتا ہے تو وہاں زندگی دھوم دھام سے چلتی ہے،جہاں زندگی رواں دواں ہوتی ہے تو وہاں لوگ زندگی کے بنیادی سہولیات حاصل کر کے مزوں سے بھری زندگیاں گزار سکتے ہیں۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کمزوریوں کا ازالہ کریں جو ہماری غفلت کی وجہ سے خاندانی زندگی میں پیدا ہوئی ہے، یعنی ہمیں چاہیئے کہ ہم وہ دراڑیں بند کریں جس سے ہماری خاندانی زندگیاں کمزور پڑ گئی ہے، ایسا کرنے کے لئے ہم کو اس بارے میں ذرa پیچھے جانا ہوگا اور وہ بھی کچھ زیادہ نہیں، بلکہ اگر ہم صرف بیس سال بھی پیچھے چلے گئے تو ہم وہ کچھ دوبارہ پائیں گے جو ہم کھو چکے ہیں اور وہ ہیں پیار، محبت، بھائی چارہ، صلہ رحمی اور ایک باعزت معاشرہ۔