حمیرا علیم
مستونگ کے علاقے کانک سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ ثنا اللہ فیض نے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کوئٹہ میں اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کیے اور 2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سکالرشپ حاصل کر کے فرانسیسی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پچھلے ہفتے اپنے تحقیقی مقالے کا کامیابی سے دفاع کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر لی۔ انہوں نے دنیا کی 50 بہترین یونیورسٹیز میں سے ایک سے یہ ڈگری لی ہے۔
ثناء اللہ فیض کے مطابق انہوں نے خودکار گاڑیوں کے مواصلاتی نظام پر تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سطح پر کام آ سکتی ہے اور اس سے خودکار گاڑیوں کی حفاظتی خصوصیات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ثناء اللہ بتاتے ہیں، ”میں ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔ والد پرچون کی چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ والد نے ہمیشہ اعلٰی تعلیم کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ تھی کہ میں گریجویشن کرنے والا خاندان کا پہلا فرد تھا اس کے بعد چھوٹے بھائی نے بھی ایم بی اے کیا، میں شروع سے ہی پڑھائی میں اچھا تھا، پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بورڈ امتحان میں پورے ضلع میں ٹاپ کیا، میٹرک کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا، والد نے مالی پریشانیوں کے باوجود کوئٹہ کے ایک اچھے نجی تعلیمی ادارے میں داخلہ دلوایا، کوئٹہ میں گھر نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار ماموں کے گھر رہنا پڑا، انہوں نے بھی ہمیشہ مدد کی۔”
ثناءاللہ اپنی فیس اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے لیے پڑوسیوں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے، ”میں ٹی وی پر کسی کے نام کے ساتھ انجینئر، ڈاکٹر یا پروفیسر کا نام دیکھتا تھا تو کزن سے پوچھتا تھا کہ یہ انجینئر اور ڈاکٹر کیسے بنتے ہیں، اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے نام کے ساتھ انجینئر اور ڈاکٹر لگانا ہے، میں نے دل لگا کر پڑھائی پر محنت کی، کمپیوٹر میں زیادہ دلچسپی تھی اس لیے کمپیوٹر انجینئرنگ کی، انٹرمیڈیٹ کے بعد کوئٹہ کی بی یو ٹی ایمز یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ایس اور ایم ایس کیا، 2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان کے طلبہ کے لیے پی ایچ ڈی سکالر شپس کا اعلان ہوا تو میں امتحان پاس کر کے فرانس آ گیا۔”
ڈاکٹر ثناءاللہ کے مطابق بلوچستان میں اساتذہ کا رویہ اچھا اور بہتر تھا وہ رہنمائی اور مدد کرتے تھے لیکن ہمارا معاشرہ ابھی بھی اس مقام پر نہیں پہنچا جہاں جسمانی طور پر کمزوری کے شکار افراد کو عزت و احترام اور حقوق ملیں، ”بدقسمتی سے بچے تو بچے بڑے بھی جسمانی طور پر کسی کمزوری کے شکار فرد کا مذاق اڑاتے ہیں، قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی آتے جاتے ہوئے لوگ تنگ کرتے تھے، دھکے دیتے تھے، ایک بار تو لڑکوں نے نالے میں گرا دیا اور ایک بار سر پر مٹی پھینک دی، اسکول میں سینئر لڑکے اپنی کتابوں سے بھرا بستہ سر پر رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم پڑھائی کر کے کیا کرو گے اپنے والد کی دکان پر بیٹھا کرو، ایسے واقعات سے دکھ ہوتا تھا اور حوصلہ شکنی بھی لیکن اس کے باوجود آگے بڑھنے کی تڑپ موجود رہی۔”
ان کے مطابق آج جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں جسمانی سے زیادہ دماغ کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، ”جب بھی مجھے کوئی کہتا ہے کہ یہ کام آپ نہیں کر سکتے تو میں اسے چیلنج سمجھ لیتا ہوں اور کر کے دکھاتا ہوں۔”
انہوں نے بتایا کہ فرانس میں جسمانی طور پر نارمل افراد کے لیے ڈرائیونگ لائسنس لینا بھی مشکل ہے، یہاں میرے کچھ دوست پانچ چھ سال کی کوششوں کے باوجود ناکام ہیں، دوست کہتے تھے آپ کبھی ڈرائیونگ لائسنس نہیں لے سکیں گے کیونکہ آپ کو تو فرنچ بھی نہیں آتی، میں نے ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ فرنچ زبان بھی سیکھی جس کے بعد لائسنس بھی حاصل کیا۔”
ڈاکٹر ثناء اللہ کے مطابق پاکستان کی نسبت فرانس میں لوگ زیادہ احترام سے پیش آتے ہیں، لوگوں کے سوچنے کا انداز مختلف ہے، بس ڈرائیور تک آپ کی مشکل کا احساس کرتا ہے، اسی طرح یونیورسٹی نے مجھے ایگزیکٹیو سٹیٹیس دے کر ہر جگہ تک خصوصی رسائی دی ہے جہاں باقی طلبہ کو اجازت نہیں۔
ان کا ارادہ ہے کہ وہ جلد واپس آ کر اپنے علاقے میں لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شعور اور تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے۔