لانگ مارچ: پختون ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے
محمد سہیل مونس
کل پرسوں ہی عمران خان صاحب کے لانگ مارچ کے بارے میں لکھ چکا ہوں جس میں کئی حقائق کا تذکرہ بھی کر چکا ہوں لیکن اس مارچ میں قومیت کے حساب سے پٹھان قوم کا کردار ذرا واضح کرتا چلوں کہ ان کو کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
ہم اگر دیکھ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں اٹھنے والی اکثر تبدیلیوں کا آغاز صوبہ خیبر پختون خوا سے ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ صوبہ پاکستان میں تجربہ گاہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس صوبہ میں طرح طرح کے تجربات ہوتے دیکھے گئے جس کا ذکر گاہے بہ گاہے ہوتا چلا آ رہا ہے مثلاً ماضی قریب میں طالبان کی نرسریز کا قیام، ملاکنڈ میں شرعی عدالتوں کا قیام اور پھر سیاسی جماعتوں میں سے باری باری ہر سمجھوتہ کرنے والے کو یہاں حکومت بنانے کی اجازت دینا۔ ان حکومتوں میں سے ہم نے ایم ایم اے، اے این پی اور مسلم لیگ کے علاوہ پی ٹی آئی کا تقریباً دس سالہ اقتدار بھی ملاحظہ کیا۔
پی ٹی آئی کے پہلے دور میں اس جماعت کے چیدہ چیدہ افراد کو یہاں گورننس سیکھنے کی ایک 5 سالہ کلاس کا اہتمام کیا گیا اور پھر ان کو پروموٹ کر کے وفاق میں بٹھا دیا گیا۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ چینج یا کہہ لیجئے کہ تبدیلی واسطے یہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہر بار ان کے ساتھ ہاتھ ہو جاتا ہے، یہ بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگاتے ہیں لیکن پی پی پی کی حکومت میں بھی ان کی زندگی پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا۔
ہم اگر اسی طرح مسلم لیگ کی بات کریں تو ان کا تو یہاں کے عوام سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ کچھ ہو نہ ہو ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کا مشن تو کہیں گیا ہی نہیں جبکہ گیارہ بارہ کروڑ عوام کے صوبہ پنجاب میں انتظامی یونٹس بنانے سے ان کی جان جاتی ہے۔
اب ان دو بڑی جماعتوں کے بعد بزور لائی گئی پی ٹی آئی کو ہی دیکھ لیں تو ان کی صرف ایک مثال دیتا چلوں گا کہ ان کے دور حکومت میں یہ صوبہ 8 سو ارب روپے سے جا کر ہزاروں ارب روپے کا مقروض ہوا چاہتا ہے۔
اب اگر حالیہ صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ لانگ مارچ لاہور سے چلا ہے، حقیقی آزادی کا نعرہ لے کر ہر راستے اور چوک میں موسیقی اور ناچ گانا چل رہا ہے، جہاں کہیں بھی پڑاو کا وقت قریب آ جاتا ہے اکثر لوگ جلوس چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مارچز انسانی تاریخ میں کچھ انوکھے ہی مارچز ہیں جن میں ساری توانائی ناچ گانے پہ صرف ہوتی ہے لیکن قصور ان بچاروں کا بھی نہیں اس لئے کہ جس ملک میں تھیٹر، سٹیج، سنیما اور لائیو کنسرٹ پر پابندی ہو جبکہ ٹی وی چینلز پر مسلسل سیاسی بک بک اور تجزیے چلتے ہوں تو اس طرح کے جلسے جلوسوں میں لوگ پھر دل کا غبار اسی طرح ہی نکالنے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔
اس وقت معلوم نہیں کہ لانگ مارچ کا قافلہ کس جگہ پہنچا ہے لیکن کچھ ہی روز قبل خبریں یہی تھیں کہ فوج نے بال حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے جس سے واضح یہ ہوتا ہے کہ فوج کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں اور اب وہ سیاسی جماعتوں کو لڑانا چاہتی ہے تاکہ مارشل لاء کا کوئی جواز بنے۔ حکومت نے بھی چند افراد پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
لیکن اس مارچ کے حوالے سے سینئر صحافی جناب جاوید چوہدری کی ایک کمال ویڈیو شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے پنجاب کی ذہنیت کا خاکہ کمال کھینچا ہے، جس میں پٹھانوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اٹک کے مقام پر دریائے سندھ پار کرنے والوں کا خیرمقدم پنجابیوں نے بصد احترام و تکریم کیا اور بلاچوں و چراں ان کی ہر بات مانی یعنی لڑے نہیں لیکن اکثر آنے والوں کو یہاں سے آگے لے کر پانی پت اور اس سے آگے تک لڑانے واسطے لے گئے۔ ان کا خاصہ رہا ہے کہ جیتنے والوں کے گلے میں ہار ڈالے اور ہارنے والے اگر پہلے ان کے ساتھی ہی کیوں نہ تھے، جیتنے والوں کے ساتھ مل کر ان کی مٹی پلید کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ پھر مزید کہا کہ انگریز بہادر وہ واحد لوگ تھے جو اس جانب سے آئے جہاں سے پنجابیوں کو توقع ہی نہ تھی لہٰذا انہیں لے کر افغانستان پہنچا دیا کیونکہ وہ بھی لڑاکا لوگ تھے اور انگریز کو بھی اس طرح کی مہم جوئی میں مزہ آتا تھا لہٰذا پنجابی سرتسلیم خم کر کے فائدے میں رہے جبکہ افغانوں اور انگریزوں کو لڑا دیا۔
جاوید چوہدری صاحب نے مزید کہا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پنجابی محض ماحول گرم کرنے والوں اور ہل گلہ کرنے والوں کی قوم ہے، یہاں ہر بندہ مولا جٹ ہے اور بھڑکیں مارنا ان کی جینز میں ہے لہٰذا آزادی مارچ ہو یا پھر کوئی بھی جلسہ جلوس یہ لوگ بھنگڑے ڈال کر اور بھڑکیں مار کر رفوچکر ہو جائیں گے اور میدان میں ان لوگوں کو چھوڑ جائیں گے جو ان کی اس خصلت سے واقف نہیں۔
ان باتوں کے بعد بھی اگر پختون قوم ایک اندھے کی طرح بار بار ایک ہی کونٹے پہ گرتی جاتی ہے تو ان کو اندھا نہیں عقل کا اندھا کہا جا سکتا ہے۔
یہ بات فی الحال قبل از امکان ہے کہ اسلام آباد میں ہوتا کیا ہے، کیا اس سے پہلے ہی پرویز الہی اینڈ کمپنی اصل مالکان وطن سے کوئی سمجھوتہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر دمادم مست قلندر ہوتا ہے اور پھر اس میں کتنے لوگ کام آتے ہیں۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ اسلام آباد پختونوں سے کم فاصلے پر ہونے کی وجہ سے یہاں زیادہ تعداد میں پختون ہی ہو سکتے ہیں۔ اب اگر حالات مخدوش ہونے جاتے ہیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئیں گے اور جب وہ حرکت میں آئیں گے تو حرکت میں آنے والی فورس میں پولیس اور ایف سی ہو سکتی ہے جبکہ واضح رہے کہ ایف سی میں بھی زیادہ تعداد پختونوں کی ہے لہٰذا کسی ناخوشگوار صورت حال میں پختون ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔
اس مارچ کو اب اگر منطقی انجام تک پہنچانا ہے تو پورے ملک نے یک آواز ہو کر نکلنا ہو گا، اس عزم کے ساتھ کہ چہرے ہی نہیں بلکہ سارا فرسودہ نظام بدلا جائے اور ملک ایک حقیقی آزادی کی جانب جائے۔
نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں