لائف سٹائلکالم

ارشد شریف کی والدہ کے حوصلے و ہمت کو سلام!

حمیرا علیم

اگرچہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسے صنف نازک کہا جاتا ہے مگر یہی عورت جب ماں بنتی ہے تو تخلیق کے مرحلے سے گزرتے ہوئے 57 ڈیل (درد ناپنے کا پیمانہ) یعنی بیس ہڈیوں کے ٹوٹنے جتنی تکلیف برداشت کرتی ہے اور صنف نازک صنف آہن سے بھی برتر ہو جاتی ہے۔ ایک ماں کے لیے بے حد خوشی کا موقع ہوتا ہے جب اس کا کوئی بچہ اس سے ملنے کے لیے آتا ہے۔ وہ اسے لینے ایئرپورٹ جاتی ہے اور جب وہ ایئرپورٹ سے باہر آتا ہے تو اسے آگے بڑھ کر گلے لگاتی ہے۔

ارشد شریف کی والدہ لیے بھی کل پرسوں اپنے بیٹے کو ریسیور کرنا خوشی کا موقع تھا۔ اگرچہ نہ تو بیٹا ماں کی طرف دوڑا نہ ہی ماں اسے گلے لگا سکی کیونکہ ارشد شریف ایک تابوت میں مردہ حالت میں وطن پہنچے تھے مگر ان کی صدمے سے نڈھال ماں خوش تھیں کیونکہ انہیں یہ یقین ہی نہ تھا کہ ان کے بیٹے کے جسد خاکی کو اپنے وطن کی مٹی میں دفن ہونا بھی نصیب ہو گا یا نہیں۔ جن لوگوں نے ان کے لخت جگر کو وطن سے جانے پر مجبور کر دیا تھا پھر دیار غیر میں بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا وہ ان کے بیٹے کو مجرم ثابت کرنے کی سرتوڑ مگر بھونڈی کوشش کر رہے تھے، وہ انہیں اپنے بیٹے کے آخری دیدار سے بھی محروم کرنے کی بھی طاقت رکھتے تھے۔

سلام ہے اس ماں کے حوصلے اور ہمت پر جس نے اپنے بیٹے کی میت کو رات کے ایک بجے ریسیور کیا۔ یہ صرف ایک فوجی کی بیوی اور دو شہید بیٹوں کی ماں کا ہی ظرف ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ہی دن اپنے شوہر اور بیٹے کو رخصت کرے اور پھر محض گیارہ سال بعد خاندان کے واحد زندہ بچ جانے والے مرد  کو بھی وطن کی نذر کر دے۔ یہ صرف ارشد شریف کی والدہ کا ہی حوصلہ ہے کہ تین دن سے ہزاروں لوگوں سے نہ صرف پرسہ وصول کر رہی ہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی کھلے دل سے ریسیو کر رہی ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے اپنا بیٹا کھویا۔ یہ ارشد شریف کی والدہ کا ہی حوصلہ ہو سکتا ہے جو اپنے گھر تعزیت کے لیے آنے والے صدر مملکت کو ایزی کرنے کے لیے ان سے سوال کرتی ہیں: "آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں یا چھوٹے؟”

ہزاروں پاکستانی جو ارشد شریف کو صرف بطور صحافی جانتے ہیں، بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان کی وفات کی خبر کے بعد انہیں گوگل کیا اور ان سے  واقف ہوئے مگر سب اتنے ہی دکھی ہیں جتنے ان کے خاندان اور دوست احباب۔ ان کے قتل نے مجھے پرانے زمانے کے بادشاہوں کی یاد دلا دی جو اپنے مخالفین حتی کہ اپنے سگے بھائیوں کو بھی محض اس ڈر سے مروا دیا کرتے تھے کہ وہ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ اور مزے کی بات ہے اس سب احتیاط کے باوجود اکثر خود بھی بری طرح سے مارے جاتے تھے۔

وہ لوگ تو کسی ملک اور سلطنت کے لیے لوگوں کو مرواتے تھے کیا آج کے دور کا کوئی عہدہ یا کرسی اس قابل ہے کہ اس کے لیے کسی ایسے شخص کو سرعام گولی مار دی جائے جسے آپ کے نظریات، پالیسیز یا خیالات سے اختلاف ہو اور جو اس کے خلاف آواز اٹھائے؟ وہ عہدہ یا کرسی جو آج آپ کے پاس ہے اور کل کسی اور کے پاس چلی جائے گی۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا: "تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔” (مسلم 69)

پاکستان میں کسی کو ہاتھوں سے روکنے کی نہ تو طاقت ہے نہ جرات اور اگر کوئی جہاد بالقلم یا بالزبان کرنے کی ہمت کر ہی لے تو اسے دوسروں کے لیے نشان عبرت بنانے کے لیے اسی طرح قتل کر دیا جاتا ہے جس طرح ارشد شریف کو کیا گیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ قاتل اس پہ خوشیاں بھی مناتے ہیں اور ٹویٹ کر کے نہ صرف اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور ارشد شریف کے نقش پا پہ چلنے والوں کو وارننگ بھی دیتے ہیں کہ ہم سے ٹکرانے کی جرات کی تو ایسا حشر ہو گا اس لیے جیسا ہم کہیں ویسا ہی کرو۔

اس واقعہ سے کم از کم ایک بات تو واضح ہو گئی کہ صحافی حق کا ساتھ دینے کی بجائے لفافہ لینے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں۔ جان گنوانے سے بہتر ہے کہ زبان بند کر لی جائے، اندھا بہرہ بنا جائے۔ فرعونیت کی انتہا ہے کہ صاحبان اقتدار و اختیار اپنے آپ کو لوگوں کی زندگیوں کے مالک سمجھنے لگے ہیں۔ اور یہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن انہیں بھی مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

اللہ تعالٰی کا احسان ہے کہ اس نے مستقبل کو پوشیدہ رکھا ہے، اگر راشد شریف کی والدہ کو مستقبل کا علم ہوتا، وہ جانتی ہوتیں کہ ان کے بیٹے کو کینیا میں قتل کر دیا جائے گا تو کیا وہ ایک لمحے کے لیے بھی ارشد شریف کو نظروں سے اوجھل ہونے دیتیں؟

لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ راشد کینیا کیوں گئے؟ اگرچہ 29 ایسے ممالک ہیں جہاں پاکستانی ویزہ آن آرائیول کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں پھر وہ ان سب کو چھوڑ کر کینیا ہی کیوں گئے؟ یہ راز تو اللہ تعالٰی کی ذات جانتی ہے یا راشد کے قاتل جو شاید انہیں دبئی سے زبردستی کینیا لے گئے اور پھر قتل کر دیا۔

مگر حدیث ہمیں واضح طور پر مطلع کر چکی ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ ہوا سے کہیں کہ اسے ہندوستان چھوڑ آئے اور وہاں اس کا انتقال ہو گیا۔ عزرائیل علیہ السلام نے ان کو بتایا کہ مجھے اس شخص کی روح ہندوستان میں قبض کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور میں حیران تھا کہ وہ آپ کے دربار میں ہے مگر اس نے خود آپ سے ہندوستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور میرا کام آسان بنا دیا۔

ارشد شریف کی روح قبض ہونے کا مقام کینیا ہی مقرر تھا چاہے وہ خود گئے یا زبردستی لے جائے گئے۔ ان کا آخری وقت مقرر تھا ورنہ ان جیسا محب وطن اور بہادر شخص کبھی بھی پاکستان چھوڑ کر نہ جاتا۔

حکومت نے دکھاوے کے لیے کمیشن بنا دیا ہے ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں دودھ دی راکھی بلا بٹھانا (یعنی دودھ کے دشمن، بلی کو اس کی حفاظت پر مقرر کر دیا جائے)۔ ایسے سینکڑوں کمیشن بنے جو کبھی پاکستان میں تو شفاف تحقیقات نہ کر سکے نہ ہی مجرموں کو پکڑ کر سزا دلوا سکے کینیا میں کیا تیر مار لیں گے۔

اللہ تعالٰی راشد کے اہل خانہ اور دوست احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی روح کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

میت پہ آ کے بیٹھیے، تسکین لیجئے
کرسی مرے لہو سے ہے رنگین، لیجئے

کردہ گناہ کم ہیں تو ناکردہ تھوپ کر
میرے خلاف فیصلے دو تین، لیجئے

ایسی فضا میں بچھ گئی تقدیر کی بساط
اب منہ کے بل گرے سبھی شاہین، لیجئے

گو جانتے ہیں رائیگاں ہو گی ہر اک دعا
مردہ دلی سے کہہ دیا آمین، لیجئے

جب آپ مقتدِر ہیں تو یہ حق ہے آپ کو
لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیجیے (کومل جوئیہ)

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button