لائف سٹائلکالم

فحاشی اور ہم

 

ارم رحمان

کچھ صفات یا خصلتیں جبلت میں ہوتی ہیں اور کچھ فطرت میں
لیکن” فحاشی” نہ جبلت ہے نہ خصلت ،اسکو محض ایک عادت یا عدم تربیت کی پیدا وار یا سوچ کہہ لیجیے اور یہ شعور اور عقل سے کام لینے پر ختم کی جاسکتی ہے۔
فحاشی ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی پہ غور کیا جائے تو یہ صرف جسمانی نہیں بلکہ زبانی اور ذہنی بھی ہوتی ہے
یہ وہ جذبہ اور سوچ ہے جو انسان کے اپنے اختیار میں ہے کیونکہ کوئی مذہب کو مانے یا نہ مانے لیکن در حقیقت تو اللہ ہی خالق و مالک ہے اس نے مخلوق میں کیا رکھا ہے کیسا بنایا ہے صرف وہی جانتا ہے کچھ باتوں کا اختیار اللہ نے اپنے پاس رکھا اور کچھ بندوں پہ چھوڑ دیا تاکہ بندے کی بندگی کا امتحان لے سکے۔

اچھے اور مہذب معاشرے میں لوگ بول چال میں خاص خیال رکھتے ہیں کہ بہترین الفاظ بولے جائیں اور کسی بھی محفل میں بہترین دیدہ زیب لباس پہن کر پیش ہوا جائے ، زبان کی شائستگی اور نفاست بذات خود ایک خوبی معنی جاتی ہے کہ فلاں شخص بہت خوبصورت گفتگو کرتا ہے ،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی گالی بکتا ہے یا غلط لب و لہجے میں بولتا ہے ،ذومعنی گندے مذاق جس میں کسی عورت مرد کے حوالے سے یا جسمانی حوالے سے بات کی جائے یا باہمی تعلق کا ذکر عامیانہ انداز میں پیش کیا جائے جو لچر پن یا لغو گوئی کے زمرے میں آتا ہے اصل میں وہ ” فحش گوئی ” ہے۔

اسی طرح اچھے کپڑے مردوعورت کی شخصیت کے عکاسی کرتے ہیں تنگ ،چھوٹا اور نامکمل سا لباس جو ایک مسلمان معاشرے کی تہذیب وتمدن کے خلاف ہو اسے ” عریانی ،نیم برہنگی یا فحاشی ” کا نام دیا جاتا ہے اور عام طور پر خواتین کا ایسے لباس میں ملبوس ہونا جو ان کے جسمانی خدو خال کو نمایاں کرے یا دعوت نظارہ دے ،ریجھنے اور رجھانے والے حالات پیدا کرے تو اسے فحش لباسی کا نام دیا جاتا ہے ،مردوں میں یہ عنصر بہت کم ہے کیونکہ وہ عورتوں کو ہی ایسا ماحول دے چکے ہیں جہاں عورت اپنی عزت وقار اور تہذیب بھول کر ان مردوں کی باتوں میں آچکی ہے جو اسے سر بازار رسوا کرنے کے درپے ہیں ،فیشن کے نام پر عریانی اور فحاشی کو عام کردیا ہے جو سراسر عورت اپنے ساتھ خود زیادتی کر رہی ہے وہ اگر ایسا لباس نہ پہنے تو کوئی اسے زبردستی پہننے کو نہیں کہہ سکتا۔

اب بات کرتے ہیں ذہنی آلودگی کی ،پراگندہ سوچ اور خبث باطن کی ،جہاں دماغ کے کارخانے میں گندے بے ہودہ خیالات پنپتے ہیں ،تخریب کار سوچیں جنم لیتی ہیں اور ان سوچوں اور خیالوں کی رو میں بہہ کر ایسے مکروہ اور قبیح کام سرانجام دئیے جاتے ہیں جن کا انجام تباہی پہ منتج ہوتا ہےاور بسا اوقات گناہ اور جرم پر جس میں زنا ،ہم جنس پرستی اور بدفعلی شامل ہے۔

فحش جذبات ،وسوسہ، ان پر قابو پانا چنداں مشکل نہیں ،گندے ترین خیالات کو بھی کسی اچھے خیال کو سوچ کر جھٹکا جا سکتا ہے اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کرکے اس ذہنی انتشار سے چھٹکارہ پانا ممکن ہے۔
فحاشی کی بہت سی تعریفیں بیان کی گئیں ،مذمت کی گئ ،اور وجوہات بیان کی گئیں ،ہر انسان نے اسے اپنے طرزفکر کے مطابق بیان کیا ،میں کسی بڑے کے قول یا مذہب کا پرچار کیے بنا اپنا مطمع نظر اس طرح بیان کروں گی
"” جب انسان کے اندر کا حیوان جاگے اور انسانی حقوق کی پامالی کا خیال دل میں آئے ،وہ فحاشی ہے "”
قبیح خصلت، کسی بھی رشتے اور تعلق کا حد سے تجاوز کر جانا، کسی کی عزت اور تقدس کی پامالی، یاکسی انسان کے ساتھ وہ زبردستی کرنا جو وہ نہیں چاہتا ،یا جس پر اس کا حق ہے کہ اسے غصب نہ کیا جائے ،جسمانی پابندی اور کسی بھی بچے جوان عورت مرد سب کا جسم کسی دوسرے کی دسترس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے اور اس کا احترام کیے جاناہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
کوئی اسے زبردستی اس حق سے محروم نہیں کر سکتا ،اس لیے زنا بالجبر اوربدفعلی کی شدید مذمت کی جاتی ہے
فحاشی کے لیے بہت سے مضامین لکھے گئے اور مختلف پہلوؤں پر بہت وضاحت کی گئ
سوشل میڈیا پر تنقید ،فلموں ڈراموں
عورت کے لباس
اشتہار ،ماڈلنگ
فیشن ڈیزائننگ
پورن پکچرز اور دیگر ایسی ویب سائیٹس اور رسالہ کتابی مواد ۔۔۔ یہ سب کیوں ہے ؟
لوگ خراب ہوتے ہیں ؟
ذہن منتشر ہوتے ہیں ؟
مان لیا ،سب غلط ہے ،سارا جہان غلط ہے
ایک بات بتائیے جب کوئی سفر پہ نکلتا ہے تو کیا راستے کے سارے کانٹے ،پتھر ہٹا دئیے جاتے ہیں ؟
کیا نرم گداز قالین بچھا دئیے جاتے ہیں ؟
یا نوکر غلام ،پیروں کے نیچے اپنے ہاتھ رکھتے ہیں ؟
یہ سب باتیں صرف ذہنی اور اخلاقی کمزور لوگ کرتے ہیں
یہ حیلے بہانے بد کردار اور شیطانی وسوسوں میں آنے والے لوگ کرتے ہیں ،
کچھ لوگ لواطت اور مشت زنی کرتے ہیں کہ یہ تو ہمارا جسم ہے ہماری مرضی ،ہم نے تو کسی کو تنگ ورسوا نہیں کیا ،کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ،تنہائی میں اپنے ساتھ ہی کیا جو کچھ کیا ایسا کرنے والے
اپنی نفسانی تسکین کے لیے یہ بہانے گھڑتے ہیں
یا اکثر لوگ کہتے نظر آتے ہیں زمانہ ہی بہت خراب ہے ،معاشرے میں فحاشی ہی بہت ہے ، ہم خود پہ قابو نہیں رکھ پاتے
یہ محض تاویلیں ہیں ، دراصل لوگ خود ہر وقت ایسی چیزوں کے متلاشی رہتے ہیں کہ زندگی میں کوئی رنگینی ہو ،بہت بوریت ہے کیونکہ ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی مثبت تفریح نہیں ،صحتمںد کام نہیں ورنہ کیا اس معاشرے میں قابل اور پڑھے لکھے لوگوں کی کمی ہے لوگوں کے مشن ہوتے ہیں مقاصد ہوتے ہیں بڑے بڑے خواب ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے وہ دن رات محنت کرتے ہیں اپ مشاہدہ کیجیے تو معلوم ہوگا جتنے عظیم پڑھے لکھے قابل پروفیسر عالم کھلاڑی اور بہترین کاروباری ،سائینسدان ہر وقت موبائل کے ساتھ نہیں چمٹے رہتے اور فحش تصاویر کو دیکھ کر وقت ضائع نہیں کرتے ،وہ بھی تو انسان ہیں ان کے بھی جزبات ہیں مگر ان کی ذہنی صلاحیت اور مقصدیت انھیں متحرک رکھتی ہے انھیں وقت کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوتاہے اور معاشرے میں عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا احساس۔
کوئی بھی تعلیم اور ہنر سیکھنے والا انسان آپ کو فارغ اور فضول مشاغل میں وقت ضائع کرتا نظر نہیں آئےگا وہ سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
ان پہ یہ چیزیں اثر انداز کیوں نہیں ہوتیں
سادہ سا جواب ہے انھیں درست اور غلط کی پہچان ہے
مقصدیت اور لا معنی کا فرق سمجھتے ہیں
اور اپنی نفسانی اور جذباتی سوچوں پہ قابو پانا جانتے ہیں
یہ سب پڑھ کر اپنا جائزہ لیجیے
"اگر آپ کو ہر طرح کی فحاشی لطف دیتی ہے اور آپ اسے تفریح کا ذریعہ اور وقت گزاری کا سامان سمجھتے ہیں
تو آپ ایک بہت کمزور انسان ہیں ”
"آپ کے جسم اور دماغ پر آپ کا کنٹرول نہیں ،”
"خود لذتی اور اسکا تلذز آپ کی ذہنی انتشاری اور جسمانی بیماری کا منہ بولتا ثبوت ہے”
ان سب کو درست کرنا سو فیصد آپ کے اپنے اختیار میں ہے
یہ ایک ایسا صبر آزما امتحان ہے جسے صرف مضبوط اور سمجھدار ہی پاس کر سکتے ہیں
اگر آپ کمزور قوت ارادی کے مالک ہیں اور آپ کو سوشل میڈیا ،پورنو گرافی اور خود لذتی جیسے عوامل کے ہاتھوں بے بس اور مجبور ہیں
تو غلطی آپ کی ہے کمزور آپ ہیں کیونکہ آپ نے اپنے دماغ اور کردار کو کھلا چھوڑ دیاہے یوں سمجھیے
جب آپ نے گھر کا مین گیٹ کھلا چھوڑ دیا کسی کے آنے جانے پر کوئی قدغن یاپابندی نہیں اور پھر سب چوری ہو جائے تو قصور وار کون ہوتاہے ؟؟

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک اچھی شاعرہ اور کہانی نویس، اور اچھا مزاح لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button