حمیرا علیم
چھاتی کا کینسر وہ کینسر ہے جو چھاتی کے خلیوں میں تیار ہوتا ہے۔ یہ کینسر یا تو لوبولس یا چھاتی کی نالیوں میں بنتا ہے۔ لوبول وہ غدود ہیں جو دودھ پیدا کرتے ہیں۔ اور نالیاں وہ راستے ہیں جو دودھ کو غدود سے نپل تک پہنچاتے ہیں۔ کینسر چھاتی کے اندر فیٹی ٹشو یا ریشہ دار کنکیکٹنگ ٹشو میں بھی ہو سکتا ہے۔ اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل سکتا ہے۔ کینسر کے بے قابو خلیات اکثر چھاتی کے دوسرے صحت مند ٹشوز پر حملہ کرتے ہیں اور بازوؤں کے نیچے لمف نوڈس تک جا سکتے ہیں۔ لمف نوڈس ایک بنیادی راستہ ہے جو کینسر کے خلیوں کو جسم کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
پہلی علامت عموماً چھاتی میں ایک گلٹی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر گلٹی کینسر ہی ہو۔ اس کی علامات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں:
چھاتی میں گلٹی یا ٹشو موٹا ہونا جو آس پاس کے ٹشو سے مختلف محسوس ہوتا ہے اور حال ہی میں تیار ہوا ہے۔ پوری چھاتی پر سرخ کھڑی جلد، چھاتی کے تمام یا کچھ حصے میں سوجن، دودھ کے علاوہ نپل سے پانی اور خون کا خارج ہونا، چھاتی پر جلد کا چھلکا، سکیلنگ یا چمکنا، چھاتی کی شکل یا سائز میں اچانک غیرواضح تبدیلی، الٹا نپل، سینے پر جلد کی ظاہری شکل میں تبدیلی، بازو کے نیچے ایک گانٹھ یا سوجن۔
اگر ان میں سے کوئی علامت ہے تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کینسر ہے۔ یہ سومی سسٹ بھی ہو سکتی ہے لیکن معائنے کے لیے اپنے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے جو ان ٹیسٹس کے ذریعے تشخیص کر سکتی ہے۔
میموگرام
اپنی چھاتی کی سطح کے نیچے دیکھنے کا سب سے عام طریقہ امیجنگ ٹیسٹ ہے جسے میموگرام کہا جاتا ہے۔ 40 سال یا اس سے زیادہ عمر کی کئی خواتین چھاتی کے کینسر کی جانچ کے لیے سالانہ میموگرام کرواتی ہیں۔
الٹراساؤنڈ
چھاتی کا الٹراساؤنڈ آواز کی لہروں کا استعمال کرتا ہے تاکہ چھاتی میں گہرے ٹشوز کی تصویر بن سکے اور ٹیومر اور سومی سسٹ میں فرق پتہ لگایا جا سکے۔
چھاتی کی بائیوپسی
اگر ڈاکٹر کو چھاتی کے کینسر کا شبہ ہے تو وہ میموگرام اور الٹراساؤنڈ دونوں تجویز کر سکتی ہے اور اگر پھر بھی تشخیص نہ ہو تو بائیوپسی کروا سکتی ہے۔ اس میں ڈاکٹر مشکوک جگہ سے ٹشو کا نمونہ نکال کر اس کی جانچ کرتی ہے۔ بائیوپسی کی کئی اقسام ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹیسٹوں میں ڈاکٹر ٹشو کا نمونہ لینے کے لیے سوئی کا استعمال کرتی ہے۔ دوسرے میں وہ چھاتی میں چیرا لگاتے ہیں اور پھر نمونے کو لے لیتی ہے۔ ٹشو کا نمونہ لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر نمونہ مثبت ٹیسٹ ہو تو لیب اس کی مزید جانچ کر کے ڈاکٹر کو بتاتی ہے کہ یہ کس قسم کا کینسر ہے، ایک ڈاکٹر ٹیومر کے سائز اور یہ لمف نوڈس یا جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا ہے یا نہیں اس کے مطابق کینسر کی اسٹیج طے کرتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کو روکنے کی چار اہم اسٹیجز ہیں؛
اسٹیج 0: ڈکٹل کارسنوما ان سیٹو ( ڈی سی آئی ایس) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خلیات نالیوں کے اندر محدود ہیں اور آس پاس کے ٹشوز پر حملہ نہیں کرتے ہیں۔
اسٹیج 1: اس اسٹیج پر ٹیومر کی پیمائش 2 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ کسی لمف نوڈس کو متاثر نہیں کرتا ہے یا لمف نوڈس میں کینسر کے خلیوں کے چھوٹے گروپ ہیں۔
اسٹیج 2: ٹیومر 2 سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ قریبی نوڈس میں پھیلنا شروع ہو گیا ہے یا 2-5 سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہے اور لمف نوڈس میں نہیں پھیلا ہے۔
اسٹیج 3: ٹیومر 5 سینٹی میٹر تک ہے اور یہ کئی لمف نوڈس میں پھیل چکا ہے یا ٹیومر 5 سینٹی میٹر سے بڑا ہے اور کچھ لمف نوڈس میں پھیل چکا ہے۔
اسٹیج 4: کینسر دور کے اعضاء میں پھیل چکا ہے اکثر ہڈیوں، جگر، دماغ یا پھیپھڑوں میں۔
چھاتی کے کینسر کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ تاہم احتیاط کی جا سکتی ہے۔ الکحل کے زیادہ استعمال سے پرہیز کریں۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل صحت مند غذا کھائیں۔ ورزش کریں۔ صحت مند باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کو برقرار رکھیں۔
خواتین کو دودھ پلانے اور مینوپاز کے بعد ایچ آر ٹی کے استعمال پر غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔ اس کینسر کے علاج میں سرجری بھی ایک آپشن ہے۔
کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کے کینسر وارڈ میں پچیس سالہ نادیہ سب سے کم عمر مریضہ ہے۔ ڈھرکی کی نادیہ نے بتایا کہ "مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ چھاتی کا کینسر بھی کوئی بیماری ہے جو خواتین میں ہوتی ہے۔ میری تین ماہ سے طبیعت خراب رہتی تھی؛ کمزوری گھبراہٹ اور بخار رہتا تھا مگر کوئی بروقت علاج نہیں مل سکا۔ میں اپنے گاؤں اور دیگر شہروں میں تین ماہ تک ڈاکٹر بدلتی رہی۔ ڈاکٹر دوائی دیتے اور میں گھر چلی جاتی۔ پھر جب کراچی علاج کیلئے آئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ ٹیسٹ کراؤ تو معلوم ہوا مجھے چھاتی کا کینسر ہے۔”
وقارالنساء ایک ٹیچر تھیں۔ ساٹھ برس کی عمر میں وہ چھاتی کے کینسر کے ساتھ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں "مجھے سینے میں ایک گلٹی سی محسوس ہونے لگی تھی، ایک مہینہ گزر گیا تو میں نے سوچا اب ڈاکٹر کو دکھا دینا چاہئے میں نے شوہر سے بات کی اور ہسپتال میں دکھایا۔ مجھے دوسرے اسٹیج پر معلوم ہوا اور اس وقت تک یہ کینسر میرے بازو کے نیچے تک پھیل چکا تھا۔ اب علاج چل رہا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ میں دوسری خواتین کو اس بیماری کے بارے میں بتاتی ہوں۔ گھر کی خواتین شرم کی وجہ سے میرے بارے میں اور چھاتی کے کینسر کا کسی سے تذکرہ نہیں کرتیں مگر میں آگاہی کے لیے بتاتی ہوں کہ میری جیسی خواتین کو اس بارے میں پتہ ہونا چاہئے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا اور وہ موت کی طرف چلے جاتے ہیں۔”
ان کے شوہر محمد کا کہنا ہے کہ "خواتین جتنی بھی پڑھ لکھ جائیں وہ ذاتی نوعیت کی چیزوں کو چھپاتی ہیں۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ تکلیف میں ہے تو میں بجائے کسی اور خاتون کو ساتھ بھیجنے کے فوری طور پر خود سرجن سے ملا اور انھیں چیک اپ کے لیے لے کر گیا۔ ایسے وقت میں گھرو الوں کی سپورٹ مریض کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ کینسر کے مریض کو مایوس نہیں ہونا چاہئے یہی اس کا علاج ہے اور جلد تشخیص سے کینسر کا علاج ممکن ہے۔”
شیلا نامی خاتون بھی اس وارڈ میں زیر علاج ہیں۔ کیموتھراپی کے باعث شیلا کی دونوں بھنویں اور بال جھڑ چکے ہیں۔ تین بچوں کی ماں 41 سالہ شیلا لاڑکانہ سے ہیں ان کا کہنا ہے کہ "اکثر خواتین کے گھر والے یہ کہہ کر چھوٹ جاتے ہیں کہ وہم ہے کوئی بیماری نہیں۔ اندرون سندھ میں ڈاکٹر اور علاج نہ ہونے سے علاج میں مشکل ہوئی اور دن گزرتے گئے۔ عام ڈاکٹر اس مرض کو نہیں سمجھ سکے اور میرا کینسر دوسرے اسٹیج پر آ گیا۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ میں یہ کہتی ہوں کہ خواتین اپنی صحت سے جڑی کسی تکلیف کو معمولی نہ سمجھیں۔”
کراچی کے کینسر اسپیشلسٹ ڈاکٹر نور محمد کہتے ہیں کہ "پاکستان میں آئندہ برسوں میں ہر سات میں سے ایک خاتون کو چھاتی کا کینسر ہونے کا خدشہ ہے۔ کم عمر لڑکیوں میں چھاتی کا کینسر سامنے آ رہا ہے۔ غیرشادی شدہ نوجوان لڑکیوں میں ایسے کینسر کی شرح 22 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ نوجوان لڑکیوں میں چھاتی کے کینسر کا بڑا سبب یہ ہے کہ لڑکیاں جلدی عمر بلوغت کو پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ ہارمونز والی غذائی اشیاء کا استعمال ہے۔ ہم اکثر جو غذا لے رہے ہیں اس میں ملاوٹ اور کیمیائی عناصر کا زیادہ استعمال ہے جو جسمانی اعضاء پر اثرانداز ہوتا ہے یا اس کے دیگر اثرات بانجھ پن اور خواتین کی صحت کے دیگر مسائل کی صورت میں بھی سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین ڈاکٹرز کی کمی بھی ایسے مسائل میں پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے جس میں اکثر خواتین مرد ڈاکٹروں سے علاج کے لیے راضی نہیں ہوتی ہیں۔ اکثر خواتیں دیہات سے آتی ہیں کیونکہ وہاں وسائل کی کمی ہے۔ اس بیماری کے لیے حکومتی کوششیں ناکافی ہیں۔ مریض ایسے معالجین تک پہنچتے پہنچتے دوسرے سے تیسرے اسٹیج پر آ جاتا ہے۔”
ہر سال پاکستان میں ہزاروں خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرض کا باقاعدہ کوئی نیشنل اسکریننگ پروگرام موجود نہیں ہے۔ قومی سطح پر ایسے مریضوں کے ریکارڈ مرتب کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے تو سالانہ سطح پر اس کی اموات کا ریکارڈ موجود نہیں کہ کتنی خواتین سالانہ اس مرض کے باعث انتقال کر گئیں، یہ تعین کرنا مشکل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں خواتین بریسٹ کینسر کے سبب بغیر علاج کے انتقال کر جائیں تو ایسی اموات رپورٹ ہی نہیں ہو سکتیں، وہ طبعی موت میں شمار ہوتی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کا مہینہ ‘بریسٹ کینسر سے آگاہی’ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس ماہ کو منانے کا مقصد خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی پیدا کر کے خواتین کی اموات کو روکنا ہے۔
معالجین کے مطابق اس کا علاج مہنگا ضرور ہے۔ لیکن سرکاری ادارے موجود ہیں جبکہ اٹامک انرجی سینٹرز کے پورے ملک میں 17 ادارے ہیں جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر مفت ادارے بہت کم ہیں۔
پاکستان کی ماہر بریسٹ کینسر سرجن ڈاکٹر روفینہ کے مطابق سرکاری سطح پر معالجین کے ساتھ ساتھ ریڈی ایشن تھراپی کی بہترین سہولت بھی میسر ہیں لیکن ہسپتالوں میں اس سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی طویل قطاریں ہیں جس میں مریضوں کو چار سے پانچ ماہ کا انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی ماہرین طب کہتے ہیں کہ گزشتہ برسوں کی نسبت خواتین میں اس مرض سے متعلق آگاہی تو پیدا ہوئی ہے مگر اب بھی قومی سطح پر اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے حکومتی سطح پر صحت سے متعلق مزید سہولتیں اور وسائل پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مرض کے سبب اموات کو روکا جا سکے۔