عورت عاشق ہے۔۔۔!
ڈاکٹر سردار جمال
زمانہ قدیم سے لے کر آج کے سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور تک عورت کے متعلق عجیب و غریب قسم کے نظریات اور مفروضات چلے آ رہے ہیں؛ بعض نظریات کی رو سے عورت انسان ہے ہی نہیں، بعض لوگوں کا خیال یہ بے کہ عورت بے روح شے ہے، بعض کے نزدیک خالق مرد بنانا چاہتا ہے مگر جب مرد کا ڈھانچہ بناتے وقت بگڑ جاتا ہے تو اس بے کار ڈھانچے سے عورت کی تخلیق کی جاتی ہے، بعض کے نزدیک عورت استعمال ہونے والی چیز ہے جسے مرد جس طرح بھی چاہے تو استعمال کر سکتا ہے اور جب جی چاہے تو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، قدیم زمانے کے قانون میں اگر عورت کو مارا پیٹا جاتا یا قتل کیا جاتا تھا تو اس بارے قانون میں شق نہیں ہوتی تھی کیونکہ قانون تو انسانوں کے لئے بنائے جاتے ہیں اور عورت تو سرے سے انسان ہی نہیں تھی یا یوں کہہ لیں کہ اسے انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وقت کے ساتھ انسان تھوڑا بہت مہذب ہوا اور عورت کو صرف احساسات کی دنیا تک مان گیا۔ یہ بھی عورت کی توہین رہی کہ مرد نے عورت کو اپنے احساسات کی حد تک ایک اہم چیز حساب کیا، شیکسپیئر سے لے کر شیلے تک عورت کو معشوق کہا گیا مگر یہ یک طرفہ ٹریفک چلنے کی بات تھی، یہ بھی وہی پرانا عہدہ تھا مگر اچھے الفاظ کے استعمال کی بدولت دنیا والوں نے ایسا سمجھا کہ عورت کو بہت بڑا مقام دیا گیا، کیونکہ اس سے پہلے عورت کو ایک شے سمجھا گیا تھا اور اب شے سے حِس کی دنیا بن گئی، مگر کسی نے یہ نہ سوچا کہ عورت جس طرح معشوق بن سکتی ہے تو اس طرح عاشق بھی بن سکتی ہے!
نہیں ہرگز نہیں! عورت کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ اپنی خواہش کا اظہار کر سکے کیونکہ ایسا ہونے سے اس کو نسوانی حقوق مل سکتے ہیں،یہ دنیا مردوں کی دنیا ہے، ادھر اگر حقوق کے نام پہ کوئی شے موجود ہے تو وہ ہیں بشری حقوق، عورت بشر ہے نہیں، بشر صرف مرد ہو سکتے ہیں، تو پھر حقوق کہاں کے!
شاہ عبدالطیف وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ عورت عاشق ہے، جو مسلمہ حقیقت ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں عورت سے مراد ہم صرف اس عورت کو لیتے ہیں جو ہم کو نکاح کی شکل میں بعوض پانچ روپے مہر کے ملی ہو اور وہ بھی صرف زبانی طور پر، جو نہ کبھی کسی نے ادا کئے ہیں اور نہ ادا کریں گے۔
ہماری یہ سوچ بالکل غلط اور انا پر مبنی ہے۔ عورت سے مراد ہماری مائیں ہیں، جن کے بطن سے ہم پیدا ہوئے ہیں، جن کی رگوں سے ہم نے دودھ کی شکل میں خون چوس چوس کر اپنا پیٹ بھرا ہے۔
عورت سے مراد وہ بہنیں ہیں جو بھائیوں کے نام لے لے کر تھکتی نہیں۔ عورت سے مراد ہماری وہ نانیاں اور دادیاں ہیں جن کی گودوں میں ہم پیشاب کیا کرتے تھے۔ اور عورت سے مراد وہ بیٹیاں ہیں جو سوتے وقت بھی بابا بابا پکارتی رہتی ہیں اور اسی ورد کے دوران وہ خواب کی دنیا میں چلی جاتی ہیں۔ اور جب واپس آتی ہیں تو بھی ان کی لبوں پے بابا بابا ہی ہوتا ہے۔
شاہ عبدالطیف نے بالکل درست فرمایا ہے کہ عورت عاشق ہے، جب وہ ماں کے بطن میں ہو تو پرسکون رہتی ہے۔ جس ماں کے دو تین بچے پیدا ہوئے ہوں تو دوسرے اور تیسرے حمل کے دوران اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیٹ میں لڑکا رہ رہا ہے یا لڑکی کیونکہ ماں جان چکی ہے کہ لڑکی بطن میں آرام سے رہتی ہے کیونکہ وہ پرسکون رہتی ہے جبکہ لڑکا ماں کے بطن میں بے آرام ہوتا ہے، وہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے، وہ کودتا ہے، وہ لاتیں مارتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ لڑکی کے مقابلے میں ایک ماہ پہلے پیدا ہو جاتا ہے۔
عورت عاشق ہے اور یہ بات آپ اس کے بچپن میں دیکھ سکتے ہو، بچہ شرارتی ہوتا ہے اور وہ توڑ پھوڑ کرتا ہے جبکہ بچی شریف ہوتی ہے اور وہ بناتی رہتی ہے خواہ وہ گڑیا ہی کیوں نہ ہو۔
بچی جب بڑی ہو جاتی ہے تو وہ اپنا گھر بار، ماں باپ،بہن بھائی چھوڑ کر ایک پرائے شخص کے ساتھ پرائے گھر، پرائے گاؤں میں زندگی بسر کرنا شروع کر دیتی ہے اس سے بڑھ کر ایک عاشق ہونے کے اور کیا ثبوت ہو سکتے ہیں۔ عورت پرائے مرد کو اپنا جسم، اپنا ذہن اور سارے احساسات حوالہ کر دیتی ہے، عورت ایک پرائے مرد کو اپنے وجود سے لگا کر اس کی حیاتیاتی حرارت جذب کر کے مرد کو اس کی جنسی حرارت کے بدلے بچے دیتی ہے۔ عورت امین ہے جو امانت میں خیانت نہیں کرتی خواہ وہ جسم کی شکل میں ہو اور یا خیالوں کی دنیا، کیونکہ عورت عاشق ہے اور عشق فقط محبت ہے۔ عورت عام نہیں ہے، عورت خاص ہے کیونکہ وہ عشق کی بدولت گندے نطفے سے سونا یعنی انسان بناتی ہے۔