لائف سٹائلکالم

اقرباء پروری: پورا معاشرہ اس سرطان کی نذر ہو چکا!

محمد سہیل مونس

ہمارے ہاں اقرباء پروری کے اتنے مہیب سائے ہیں جو پھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں اور تھمنے کا نام تک نہیں لے رہے، ذات برادری اور یاریوں دوستیوں میں لوگوں کو اتنا نوازا جا رہا ہے کہ نوازے جانے والے شخص کے کردار اور بھیانک ماضی تک کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

حکومت نے ابھی حال ہی میں چند عہدوں پر ایسی شخصیات کو بٹھا دیا ہے جن کی زندگی ایک ایسی کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے ایک ایک صفحہ پر ان کے سیاہ کرتوت لکھے ہوئے ہیں۔ اب یہ اتنی بھی مائنڈ کرنے والی بات نہیں کیونکہ ہمارے ایوانوں اور ریاستی اداروں میں آج سے پہلے کون سے دودھ کے دھلے بیٹھے تھے کہ ہم ان کی شکایت کریں۔

اب ان بڑے بڑے مگرمچھوں سے ذرا سا نیچے آئیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارا پورا معاشرہ اس سرطان کی نذر ہو چکا ہے۔ ہم اگر دور نہ جائیں اور اپنے ہی صوبے پر ہلکی سی نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ یہاں کس لیول کی بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں اور کون لوگ ہیں جو اس ملک کی جڑوں میں بیٹھے ہیں۔

ہم اگر ذرا سی کشت کریں اور کسٹمز کے دفتر چلے جائیں تو جہاں دیکھیں خٹک برادری کے لوگ کثیر نشستوں پر براجمان ہوں گے، پولیس ڈیپارٹمنٹ میں چارسدہ اور ملحقہ علاقوں کے لوگ تعینات ہوں گے، یہی حال سوئی نادرن گیس اور انکم ٹیکس کا بھی ہے۔ پھر اسی اقرباء پروری کا شکار ایکسائز کا محکمہ بھی ہے اور ایسے درجنوں ادارے جن میں ہر قوم نے اپنے لوگوں کو کھپانے کی حتی الوسع کوشش کی ہوتی ہے۔

یہ بات یہاں پر آکر نہیں رکتی بلکہ علاقائیت سے ہوتی ہوئی گھرانوں اور نسبی سلسلوں تک جا پہنچتی ہے جیسے حضرت کاکا صاحب کی اولاد، چلو وہ ایک عظیم ہستی تھی ہم مان لیتے ہیں لیکن ان کی نسلوں کو نوازنا کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔

ہم ملتان کے قریشیوں کو لے لیتے ہیں جن کا عقیدے کے لحاظ سے اخروی دنیا سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا بس ایک سلسلے سے چمٹے رہنے کی بدولت نذرانوں کے نام پر غریب عوام سے رقم بٹور بھی رہے ہیں اور حکومتوں کے مزے الگ سے لے رہے ہیں۔

یہ حال پنجاب میں بھی ہے۔ جی تسی کونڑ؟ جی میں تے ارائیاں یاں، اسی تے چیمہ اے وغیرہ وغیرہ، یہ سارے بھی ذات پات اور برادری کے چکروں میں پڑے ہیں۔

اب اگر پورے ملک میں سائیں، وڈیرے اور سرداروں کے سلسلے چلتے ہیں تو معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں کے میاں، صاحبزادہ اور اس طرح کی کئی ایک برادریاں نہ جانے کب تک پاکستان کے اداروں میں اپنے منظور نظر لوگوں کو گھسانے کی سعی جاری رکھیں گی؟

ملک کے عام عوام کہاں جائیں؟ نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ سیاسی گٹھ جوڑ میں بھی اس اونچ نیچ کو مدنظر رکھا جاتا ہے، اکثر اوقات کسی سیاسی جماعت کی بڑی بڑی نشستوں پر قارئین کو انہی خاندانوں کے چشم شراغ دکھائی دیں گے جیسے ہزارہ ڈیویژن کے عباسی، ملک اور سردار وغیرہ، ڈیرہ کے کنڈی، گنڈاپور اور اس طرح کے کئی خان خوانین شامل ہیں۔

اب اس صورت حال میں اگر دیکھا جائے تو کروڑوں پاکستانی ہیں جن کی اولادیں روزگار اور خصوصی طور پر سرکاری نوکریوں کے لئے ماری ماری پھرتی ہیں لیکن ان خاندانوں کے لوگ جس ادارے میں دیکھیں اعلیٰ منصب پر فائز ہوں گے۔ ان لوگوں کے بڑے، بچے یا کم از کم خواتین ضرور کسی بھی ایوان کی ممبر ہوں گی یا ان میں سے نہایت ہی گئے گزرے لاڈلوں کے لئے بیرون ملک کی کسی این جی او کی ذیلی شاخ پاکستان میں کھولی گئی ہو گی جو ان کی پرآسائش زندگی کے مزوں کو برقرار رکھنے کے لئے کافی ہو گی۔ ان این جی اوز سے ان کی ماہانہ کی بھاری بھرکم تنخواہیں، مراعات، گاڑیاں، اس کے علاوہ فارن ٹورز، عیاشیاں اور بہت سے ایسے دھندے جو اس کی آڑ میں ہوتے ہیں بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔

ہم غریبوں کا کیا ہے ہمیں اس ملک میں پہلے تو اپنی شناخت ہر روز ہر ناکے پر ظاہر کرنا پڑتی ہے جبکہ ہم میں سے ملکی اداروں میں ہزارہا روڑے اٹکانے کے بعد بھی کوئی اچھی سیٹ پر پہنچ جائے تو کسی غنیمت سے کم نہیں۔

پھر ہمارے پختون معاشرے کا ایک سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کے کامیاب لوگ اگر گریڈوں کے شہر یا کم از کم صوبائی دارالحکومت پہنچتے ہیں تو پھر اپنے گاؤں یا علاقے میں ریٹائرمنٹ کے بعد ہی دکھائی دیتے ہیں جبکہ قومیت سے ہٹ کر کامیاب ہونے والا فرد بمشکل اپنے بھائی، چچیرے، ممیرے یا دوسرے تیسرے کی مدد کرتا ہے۔

یہ لوگ تمام عمر پردیس مین گزار کر اپنے قبرستان میں دفن ہونے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں جو اکثر کو نصیب ہو بھی جاتا ہے۔

اس اکیسویں صدی میں بھی اگر ہم اس برادری ازم، قومیت اور ذات پات میں الجھے رہے، ملک و قوم کی بھلائی کے فیصلے میرٹ پہ نہ کر سکیں تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے، ہم تمام عمر اس ذات سے اسی طرح آس لگائے بیٹھے رہیں گے کہ وہ ہمیں منہ میں نوالہ دے کر سیر کرے گا اس لئے کہ ہم خدا کی بڑی برگزیدہ مخلوق ہیں۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button