لائف سٹائلکالم

اسلام میں سیاحت ممنوع نہیں فضول خرچی منع ہے!

عبدالمعید زبیر

عربی میں ایک جملہ بطور ضرب المثل استعمال ہوتا ہے کہ "کل جدید لذیذ۔” یعنی ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ روزمرہ کے معمولات میں کچھ جدید کا طالب ہوتا ہے تاکہ اس کا دل لگا رہے، ورنہ طبیعت اکتا جاتی ہے۔ بسااوقات تو ایک روٹین میں رہ کر کچھ لوگ نفسیاتی سے ہو جاتے ہیں۔ لہذا معمولات میں کوئی بھی نئی چیز یا نیا کام طبیعت کو بحال رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ سیاحت بھی ہمیں نت نئے خوبصورت، قدرتی اور تاریخی مقامات کی لذت فراہم کرتی ہے اسی لیے سیاحت انسانی طبیعت کی صحت، اطمینان، فرحت اور سکون کا سبب بنتی ہے۔ اس میں انسان نئے خوش کن مناظر دیکھتا ہے جس میں اسے مختلف تہذیبوں، فطرتوں اور قدیم چیزوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو صحت کے ساتھ ساتھ علم میں بھی ترقی کا باعث بنتا ہے۔

ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق 27 ستمبر کو ہر سال عالمی یوم سیاحت منایا جاتا ہے جس کا مقصد سیاحت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ سیاحت صرف نئے رنگ برنگے کھانوں، فائیو سٹار ہوٹلوں، اے سی والے لگژری کمروں میں یا کسی سمندر کنارے بیٹھ جانے کا نام نہیں بلکہ سیاحت تو مختلف تہذیبوں کے جاننے، قدرت کے شاہکاروں اور کرشموں کا مطالعہ کرنے، مختلف مذاہب اور تاریخی آثار قدیمہ بارے معلومات اکٹھی کرنے کا نام ہے۔ سیاحت مختلف زبانوں اور نظریات کے حامل لوگوں کو قریب کرتی ہے۔ محبت و الفت اور مختلف علاقوں کی پہچان کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے اس کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے اور دن بہ دن اضافی بھی ہو رہا ہے بلکہ اب تو سیاحت ایک عالمی سرگرمی بن چکی ہے۔

سیاحت جہاں افراد کے لیے نافع ثابت ہوتی ہے، وہیں کسی بھی ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک جیسا کہ اسپین، فرانس، امریکا، اٹلی، چین، میکسیکو، جرمنی، ترکیہ اور برطانیہ سیاحت کے ذریعے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والے ممالک ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال استنبول میں سیاحوں کی آمد سے دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ صرف جنوری سے اگست تک دو کروڑ تئیس لاکھ سیاح ترکیہ جا چکے ہیں۔ انہوں نے صرف سیاحت سے ہی 37 ارب ڈالر کمانے کا اندازہ مقرر کیا تھا، جس میں سے 24 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کر چکے ہیں۔ جرمن، روس، امریکہ، ایران اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک سے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ بڑے ممالک کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو مراکش اور مالدیپ دو ایسے چھوٹے ممالک ہیں جن کی قومی آمدنی سیاحت پر منحصر ہے۔ چار سے پانچ لاکھ کی آبادی والا ملک مالدیپ اپنی معیشت کا 22 فیصد حصہ سیاحت سے نکالتا ہے۔

پاکستان کا دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو قدرت نے اس دھرتی کو خوبصورتی اور تاریخی مقامات سے مالامال کیا ہے۔ یہاں ہر قسم کی آب و ہوا اور ہر طرح کا موسم پایا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے پہاڑی سلسلے، جنگلات، ریگستان، جزائر، جھیلیں اور سرد علاقے ہائے جاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ہے جو قدرتی خوبصورتی، مذہبی اور تاریخی مقامات سے مالامال ہے۔ جنگلات میں گھرے پہاڑ، دلکش جھیلیں اور آبشاریں، سکھوں اور ہندوؤں کے مذہبی مقامات، آثار قدیمہ اور صدیوں پرانی ثقافت کے آثار دلچسپی کا مرکز ہیں۔ سوات کے دورے پر ملکہ الزبتھ دوئم نے اس کو مشرق کا "سوئٹزرلینڈ” قرار دیا تھا۔ مالم جبہ کا مقام یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ وہ سیاحوں کو ایک ہی جگہ بہت کچھ دکھتا ہے۔ اس کے سکینگ سلوپ کا شمار دنیا میں اپنی نوعیت کے بلند ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ مہوڈنڈ جھیل ہو یا بحرین، یہ سب جگہیں سیاحوں کو جکڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ چترال جو ہندوکش کے پہاڑوں میں گھری ہوئی ایک خوبصورت وادی ہے۔ جس کی وجہ شہرت تاریخی قلعے ہیں جن کی تعمیر ہی کسی بڑے شاہکار سے کم نہیں۔

آزاد کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے، وہ تو اپنی مثال آپ ہے۔ اتنی خصوصیات کے باوجود اگر آمدنی دیکھی جائے تو کسی چھوٹے ملک سے مقابلہ بھی ممکن نہیں۔ حالانکہ ورلڈ ٹورازم کونسل نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ پاکستان ایک دہائی میں 39.8 ارب ڈالر کما سکتا ہے۔ مگر ہماری ناقص پالیسیوں سے جہاں ملک کا مالی نقصان ہو رہا ہے، وہیں دنیا میں ہمارا ایمیج بھی خراب ہو رہا ہے۔

حصول اقتدار کی جنگ اور ناقص پالیسیوں نے ہمارے ملک کا بڑا نقصان ہے۔ سیاحتی مقامات کی دیکھ بھال کے لئے اتھارٹیز کا قیام کیا جاتا ہے، جسے محض اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ باہر سے آنے والے سیاحوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ این او سی کا لازمی قرار دیا جانا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک ایسی تمام شرائط ویزے کے ساتھ ہی مکمل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان شرائط میں کمی کے ساتھ ساتھ اگر ان کا طریقہ کار درست کر دیا جائے تو لاکھوں کی تعداد میں سیاح پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد ان کی سیکیورٹی اور رہن سہن کے انتظامات کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ انہیں سہولیات فراہم کی جائیں تو اس سے نہ صرف ملک کو سالانہ اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا بلکہ مقامی لوگوں کی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی انڈسٹری بھی ترقی کرے گی۔

اس کے علاوہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاحتی مقامات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے جگہیں آلودگی یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سیاحتی مقامات تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کا انتظام کا نہیں ہوتا۔ وہاں ہر چیز کے دام بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر بہت سی جگہیں ایسی ہیں کہ جو نہایت دلچسپ ہوتی ہیں مگر ان کا لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا۔ لہذا نئی جگہوں کی تشہیری مہم کے ساتھ ساتھ، ٹرانسپورٹ اور رہائش کا مناسب انتظام کرنا چاہیے۔ ان جگہوں کی صفائی، ستھرائی اور بحالی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں سرکاری نرخ مقرر ہونے چاہئیں۔ اخرجات بڑھنے سے بھی لوگ ایسی جگہوں کا رخ نہیں کرتے۔ بالفرض اگر کسی چیز کا ریٹ ہزار روپے ہے تو وہاں ایک شخص جائے گا۔ لیکن اگر یہی ریٹ آٹھ سو کر دیا جائے تو دو لوگ آ سکتے ہیں۔ اس سے جہاں سیاحت بڑھے گی وہیں ملکی آمدنی میں اضافی ہو گا۔

ہمارے ہاں بہت سے لوگ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ شاید اسلام میں سیاحت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی اسلام میں داخل ہو گیا تو اس کا کام بس نماز، روزہ اور عبادات کرنا ہی ہے۔ حالانکہ ایسا ہے نہیں۔ بلکہ اسلام صرف ایسے کاموں سے روکتا ہے جو حرام ہوں یا جن کا کوئی مقصد نہ ہو۔ بہت سے لوگ ہیں جو ایسی جگہوں پر جا کر رقص و سرود کی مجالس سجاتے ہیں، ہلڑ بازی کرتے ہیں اور فضول خرچی کرتے ہیں تو اسلام صرف اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر یہی سفر صحت کی تازگی کے لیے ہو، جہاد کے لیے ہو، تبلیغ کے لیے ہو یا عبرت حاصل کرنے کے لیے تو یہ سفر بھی باعث ثواب بن جائے گا۔ لہذا سیرو سیاحت کے ساتھ حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہمارا ہر کام ملک اور اسلام کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکے۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button