لائف سٹائلکالم

جوہری ہتھیاروں کے ”مکمل خاتمے” کا عالمی دن۔۔؟

حمیرا علیم

پاکستان کا قیام ایک ایسا معاملہ تھا جس نے نہ صرف اس کی اپنی نفسیات پر بلکہ اس کے حریف بھارت کی نفسیات پر بھی گہرے داغ چھوڑے۔ ہندوستانی تحریک آزادی کے رہنماؤں نے اس وقت ہچکچاتے ہوئے اپنے ملک کی تقسیم کو تسلیم تو کر لیا تھا لیکن انہیں یقین تھا کہ ایک خودمختار پاکستان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔

1947 میں اس کی پیدائش کے بعد سے ہی پاکستان سلامتی کے لیے ایک انتھک جدوجہد میں مبتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کی۔ 2017 تک پاکستان میں جوہری توانائی پانچ کمرشل نیوکلیئر پاور پلانٹس کے ذریعے فراہم کی جاتی رہی۔ پاکستان دنیا کا پہلا مسلم اکثریتی ملک ہے جس نے سول نیوکلیئر پاور پلانٹس بنائے اور چلائے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC)، جو سائنسی اور جوہری حکومتی ادارہ ہے ان پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔  2018 تک کمرشل نیوکلیئر پاور پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا تقریباً 7.5 فیصد بنتی ہے.۔

پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا فریق نہیں ہے لیکن بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا رکن ہے۔ پاکستان 2050 تک 32 جوہری پاور پلانٹس تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور 40,000 میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرنے کا تصور رکھتا ہے۔ پاکستان میں، 31 تھرمل انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) جن کی کل نصب صلاحیت 12427 میگاواٹ ہے اور 5 ہائیڈرو آئی پی پیز جن کی کل نصب صلاحیت 213 میگاواٹ ہے۔

پاکستان کے پاس چھ آپریبل ری ایکٹر ہیں۔ پاکستان کا پہلا نیوکلیئر پاور پلانٹ 137 میگاواٹ کا KANUPP‏ یونٹ 1 کراچی کے مضافات میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسے 1 اگست 1971 کو بنایا گیا تھا۔ اور یہ 1972 میں آپریشنل ہوا۔

اپنے 2020 کے جائزے میں نیوکلیئر سیکیورٹی انڈیکس نے کہا کہ پاکستان کی بہتری، نئے ضوابط کی منظوری کی وجہ سےپائیدار سیکیورٹی فراہم کرتی ہے۔ 1998 سے جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان نے اپنے مجموعی سکور میں 7 پوائنٹس کی بہتری کی اور مجموعی طور پر 19ویں نمبر پر آ گیا۔

1959 میں جنرل اسمبلی نے عمومی اور مکمل تخفیف اسلحہ کے مقصد کی توثیق کی۔ اقوام متحدہ کے ہر سیکرٹری جنرل نے اس مقصد کو فعال طور پر فروغ دیا ہے۔ اس کے باوجود آج تقریباً 12,705 جوہری ہتھیار باقی ہیں۔

ایسے ہتھیار رکھنے والے ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے اچھے خاصے فنڈز فراہم کیے ہیں۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اب بھی ان ممالک میں رہتی ہے جن کے پاس یا تو ایسے ہتھیار ہیں یا جوہری اتحاد کے رکن ہیں۔ اگرچہ سرد جنگ کے عروج کے بعد سے تعینات جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ لیکن ایک بھی جوہری ہتھیار کسی معاہدے کے تحت جسمانی طور پر تباہ نہیں ہوا ہے۔

جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا عالمی دن 26 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کی توجہ اس جانب دلانا ہے کہ کئی دہائیوں سے ہونے والے جوہری تجربوں نے انسانی آبادی اور ماحولیات کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔

مگر حیرت کی بات ہے کہ انڈیا، اسرائیل، امریکہ، چین، روس یا کسی بھی مغربی ملک کے ایٹمی ہتھیاروں یا ایٹمی پلانٹس کو اس قرارداد کی وجہ سے ختم نہیں کیا گیا نہ ہی انہیں عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ روس اور امریکا کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں اور عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد ذخیرہ انہیں دو کے پاس ہے۔ یہ تمام ممالک نہ صرف اپنی ایٹمی قوت میں روز بروز اضافہ کر رہے ہیں بلکہ دوسرے ممالک خصوصاً فلسطین، شام، یوکرین وغیرہ پر اپنے جدید ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال بھی کر رہے ہیں۔

جب کہ مسلم ممالک کے ایٹمی پلانٹس ان سب سپر پاورز کے لیے خطرہ ہیں۔ اور وہ ہمیشہ سے اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح ایران اور پاکستان کے ایٹمی پلانٹس بند کروا کے ان سے یہ طاقت چھین لی جائے۔ جب ایران نے اس سے انکار کیا تو اس پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اور سب سے زیادہ تکلیف اسرائیل اور امریکہ کو ہوئی۔

اسٹاک ہوم میں واقع عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری ‘دی اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ’ (ایس آئی پی آر آئی) کا کہنا ہے کہ گرچہ گزشتہ برس کے بعد سے مجموعی طور پر دنیا کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں کمی آئی ہے تاہم عملی طور پر ایسے جوہری اسلحوں کی تعیناتی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

سپری کی یہ تازہ رپورٹ چودہ جون کو شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں برس کے آغاز میں امریکا، روس، فرانس چین، بھارت، پاکستان اسرائیل، اور شمالی کوریا کے پاس مجموعی طور پر تیرہ ہزار 80 ایٹمی ہتھیار تھے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں اس میں 320 کی کمی آئی ہے۔ 2020 سے 2021 کے درمیان عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی تعداد نو ہزار 380 سے بڑھ کر نو ہزار 620 ہو گئی ہے۔

میں ایٹمی توانائی کے غلط استعمال کے حق میں ہرگز نہیں ہوں۔ اس کی وجہ امریکہ کے ہیروشیما پر گرانے والے ایٹمی بم اور چرنوبل کی وجہ سے ہونے والی تباہی ہے۔ اگر کوئی ملک یہ بم اپنے دشمن کے لیے نہ بھی استعمال کرے اور چرنوبل جیسے کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو بھی انسان، چرند پرند اور علاقے اس سے ہونے والی تابکاری کے اثرات سے کئی دہائیوں تک متاثر رہتے ہیں۔تاہم یہ حق ہر ملک کو حاصل ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سےنمٹنے کے لیے انہی کی سطح پہ اسلحہ اور افواج تیار کرے۔

اگر پاکستان اور ایران سمیت کوئی بھی ایشیائی یا مغربی ملک ایٹمی قوت کے حصول کے لیے کوشاں ہے تو اس سے امریکہ، اسرائیل یا اقوام متحدہ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں ایسے ہی اپنے آنکھ کان بند کر لینے چاہئیں جیسے وہ اسرائیل کے فلسطین پر، انڈیا کے کشمیر پر، چین کے روہنگیا پر، اور روس کے یوکرین پر مظالم پر کیے ہوئے ہیں۔

جب بھی کوئی مسلم ملک ان سب ممالک کی بربریت کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے کہ یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے ہم ان کے ملکی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ترقی پذیر ممالک اپنے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی اقدام کریں تو اقوام متحدہ کو عالمی سلامتی کی فکر ستانے لگتی ہے۔ اور وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اس ملک کا ناطقہ بند کر دیا جائے اور کسی بھی قیمت پر اسے اپنے فیصلے پر سرتسلیم خم کروایا جائے۔

کیونکہ پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے باہر ہے۔ اس کے ہتھیاروں کے پروگرام کی وجہ سے اسے جوہری پلانٹ یا مواد کی تجارت سے بڑی حد تک خارج کر دیا گیا ہے جو اس کی سول نیوکلیئر توانائی کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ تاہم چین پاکستان کے ساتھ جوہری تعاون کے بارے میں پرامید ہے۔ اور 2018 کا بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی پروگرام سول نیوکلیئر پاور کی مزید حمایت کرتا ہے۔

کسی بھی ملک کے پاس جوہری طاقت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ اپنے دشمنوں پر حملہ کر کے ان کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ اس سے دیگر فوائد بھی حاصل کیے جاتے ہیں جیسے کہ توانائی کا حصول اور طبی شعبے میں ترقی۔ اس لیے کسی بھی ملک کو اس طاقت سے زبردستی محروم کرنے کا کسی دوسرے ملک کو کوئی حق حاصل نہیں خواہ وہ امریکہ جیسا سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button