لائف سٹائلکالم

کیا ہے پسند کی شادی؟ آج یہ فیصلہ ہو ہی جائے!

ارم رحمٰن

آج کل یہ فیشن بن گیا ہے کہ نیا زمانہ ہے وقت بدل گیا ہے اب سوچ بدل جانی چاہیے اور پسند کی شادی کی اجازت ملنی چاہیے یہ لڑکے کے علاوہ لڑکی کا بھی حق ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ کھلم کھلا آزادی ہے کہ جاؤ بہن، بیٹی! جو اچھا لگے، راہ چلتا، ٹٹ پونجیا، گنگو تیلی کر لو شادی۔۔

پھر ایک انتہائی بے ہودہ جملہ ”محبت اندھی ہوتی ہے۔۔”

میں یہاں قسم کھانا نہیں چاہتی لیکن یقین کریں محبت کبھی اندھی نہیں ہوتی، بالکل بھی نہیں ہوتی۔ اگر اندھی ہوتی تو فیس بک پہ کیا دیکھتے ہیں؟ کس طرح کی لڑکی یا لڑکے سے بات کرنا پسند کرتے ہیں؟ کیا فیس بک پر تبلیغ چل رہی ہوتی ہے اور ایک معلمہ دوسرے معلم کو پسند کرتی ہیں؟

"کیا ہے پسند کی شادی؟”

آج یہ فیصلہ ہو ہی جائے!

کیا کوئی لڑکی یا لڑکا صرف کسی لڑکی سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ لڑکی کالی ہے، موٹی ہے مگر پانچ وقت کی نمازی، پردے دار اور شریف ہے؟

کیا لڑکی کبھی کسی کانے (ایک آنکھ خراب) مؤذن کی پرسوز آواز سن کر کہ یہ شخص بارش آندھی طوفان میں بھی وقت پر  اذان دینے سے نہیں چوکتا، اس سے محبت کرے گی یا شادی کرے گی؟

کیا کوئی لڑکی کسی غریب چھابڑی والے سے، ریڑھی والے سے یا رکشہ ڈرائیور یا مکینک سے اس لیے محبت کرتی ہے کہ یہ رزق حلال کماتا ہے؟

سب دھوکے، ڈھکوسلے اور سبز باغ کے چکر ہیں۔۔ کیونکہ !Facebook is a fake book

اس کو اکثر دماغی فارغ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ آپ کچھ دیر فیس بک پہ رہیں تو شاذ و نادر ہی کوئی بہت قابل شخص  فیس بک پہ ملے گا اور اگر کچھ گروپس ہیں جہاں ادبی حوالے سے کافی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے ان کو جوائن کرنے والے بھی بہت کم وقت دے پاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کرنے کے لیے بہت اہم اور ضروری کام ہوتے ہیں، ذمہ داریاں ہوتی ہیں، وقت نہیں ہوتا ان جھمیلوں میں پڑنے کا!

لہذا نالائق، کام چور یا خیالی دنیا میں رہنے والے لڑکے اور لڑکیاں ہی اس بیماری میں مبتلا نظر آتی ہیں؛ لفظ Time pass ان جاہلوں کی ہی اختراع ہے۔

لڑکیاں خوب میک اپ کر کے فلٹر کیمروں سے تصویریں کھینچ کر ڈی پی پر لگاتی ہیں پھر لڑکے ان کی طرف مائل ہوتے ہیں اور وہ 99 فی صد جھوٹے، فارغ اور ہوس زدہ ہوتے ہیں جو اکیلے میں اپنے دوستوں یاروں میں بیٹھ کر ڈینگیں مار سکیں کہ  ”فلاں پھانس لی۔۔۔ فلانی پھنس گئی۔۔۔۔ ارے تیرا بھائی تو اڑیل سے اڑیل اکڑیلی لڑکی کو شیشے میں اتار لیتا ہے۔” اور گھٹیا ترین جملہ "بچی پھنس گئی تو مزے ہو جائیں گے!”

مزے کیا ہیں یہ سوچ کر ہر غیرت مند کے ماتھے پر پسینے کے قطرے لازمی ابھریں گے، اور ایسے ہی لڑکے ہوتے ہیں جو اپنی بہنوں کو پردے میں بٹھا کر رکھتے ہیں، موبائل لینے نہیں دیتے اور ہو بھی تو ہر وقت شک کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کی بہنوں کا مزاج، شوق اور ماحول کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

ماحول اور فطرت۔۔ یہ اکثر ایک دوسرے کو غچہ دیتے ہیں؛ کبھی فطرت سے ماحول میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور کبھی ماحول سے فطرت میں۔۔

اور آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اکثر بہت زیادہ خودپسند، خودغرض اور مذہب سے دور لڑکیاں ہی گھر سے بھاگنے اور کورٹ میرج کے جھنجھٹ میں پھنستی ہیں۔ اسی طرح لڑکوں کا بھی یہ حال ہے۔ لڑکے کا بھاگنا اتنا معیوب نہیں کیونکہ لڑکے گھر سے باہر رہ لیا کرتے ہیں لیکن لڑکی ایک رات بھی گھر سے باہر رہے تو شک پیدا ہو جاتا ہے، شاید یقین۔۔

کورٹ میرج کا سستا سا طریقہ۔۔ دوست یار اکٹھے ہوئے، وکیل صاحب نے پیسے پکڑے، مجسٹریٹ کے سامنے ایجاب و قبول، باقی خانہ پری۔۔ دس پندرہ ہزار میں کام ہو گیا۔۔ اور اس ساری کاروائی اور کارگزاری کے پیچھے نفس کی گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اور اس کو پورا کرنے یا زمانے کو دکھانے جتانے کے لیے کہ نکاح تو کیا ہے زنا تو نہیں!

چلو یہ بات واقعی درست ہے کہ نکاح ہے اور جائز ہے مگر نیت کیا تھی؟ صرف اپنے وقتی مزے، جذباتی جوش و جنون۔۔ اور کچھ نہیں۔۔ کم عمر لڑکا جو اگر تھوڑا بہت کما بھی لیتا ہو گا وہ بھی ذہنی طور پر شادی کی ذمہ داری اور اہمیت کو نہیں سمجھتا، جسم تو بالغ ہو جاتا ہے لیکن سوچ اور ذہن نہیں۔

اور یہ ہی حال لڑکی کا بھی ہوتا ہے؛ کچے ذہنوں پر فلمیں ڈراموں کا اثر یا گندے لٹریچر کا یا گندی صحبت کا۔۔۔ خیر جو بھی پس منظر ہو بہرحال ایک لمحے کی لغزش آپ کی ساری زندگی، نیک نامی اور عزت خراب کر ڈالتی ہے۔

اور شادی زیادہ دیر نہ چلنے کی وجہ یہ معاشرہ ہی ہے۔

یہ معاشرہ دو دھاری تلوار ہے؛ پہلے وہ ماحول دیتا ہے جہاں دماغ خراب ہو اور پھر ہو جائے تو ٹھکانے پر واپس آنے بھی نہیں دیتا۔۔ اگر لڑکا لڑکی شادی کے بعد خوش بھی ہوں لیکن۔۔۔ اکثریت طعنے تشنیع میں لگی رہتی ہے اور ان دونوں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ بہت گناہگار ہو، بہت غلط کیا، تم لوگ پتہ نہیں کس سے کیا کچھ کرتے ہو گے، بدکردار ہو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ اب شادی ہو گئی بات ختم کر دیں، اب انھیں خوش رہنے دیں بلکہ ان کے گھر بسنے میں ان کی مدد کریں۔۔ لیکن خاندان اور معاشرے کا شدید دباؤ اکثریت برداشت نہیں کر پاتی، اور مرد سوچتا ہے کہ روز کی بک بک سے جان چھڑاؤ، طلاق دو!

اور اس کو اکسانے والوں سے زیادہ "والیاں” ہوتی ہیں جو اس بزدل اور گھٹیا مرد کو اپنی جوان کنواری بچی سونپنے کے لیے دل و جان سے تیار ہوتی ہیں۔

اس کے برعکس لڑکی نے بھی نہ جانے کتنے ماموں زاد، پھوپھی زاد، چچازاد اور خالہ زاد کا دل توڑ کر اس فیس بک کے لڑکے سے دل جوڑا ہوتا ہے۔ وہ سب پہلے ہی خار کھائے ہوتے ہیں، وہ تو لڑکی کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے

پھر ایک شادی شدہ اور بچہ بھی ہو تو۔۔ ”پھر اس میں بچا کیا” کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں۔

اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کیا کیا جائے۔۔۔

دیکھیں اور سمجھیں!

یہ زندگی ہے کوئی مستقل یا مختص اصول نہیں، یہ زندگی ایک شطرنج کی بساط ہے جو عقلمندی سے چلے گا وہ بہت دور تک جائے گا ورنہ پہلی ہی چال میں مہرہ پٹ جائے گا۔

لڑکیاں بچیاں اور خواتین بھی سب فیس بک کے جھانسے میں آ سکتی ہیں۔

پہلا اصول: کسی بھی لڑکے سے یا مرد سے ویڈیو کال نہ کریں

دوسرا اصول: اپنی تصویریں بالکل نہ دیں اور

تیسرا اصول: اتنا زبردست ہے کہ اگر آپ نے پہلے دو اصول نہیں بھی اپنائے تو یہ تیر بہدف نسخہ آپ کی پاکدامنی بچا لے گا۔۔۔ کبھی بھی کسی مرد یا لڑکے کے بلانے پر تنہائی میں ملنے نہ جائیں کیونکہ جدید دور ہے، ٹیکنا لوجی آپ کو پھنسا بھی سکتی ہے اور بچا بھی۔

آپ نے اپنی تصویر دی۔۔ ۔کٹ اینڈ پیسٹ۔۔ Cut and paste technology۔۔ یہ آپ کو بدنامی کی طرف لے جا سکتی ہے لیکن فرانزک رپورٹ کے بعد جھوٹ ثابت بھی ہو سکتی ہے۔

لیکن اس کام کا ہونا 90 فی صد ممکن نہیں ہوتا جب آپ مرد سے تنہائی میں نہیں ملیں گی کیونکہ ملنے کے بعد آپ چاہے مل کے چائے پی کر آ جائیں کڑی سے کڑی ملا کر لمبا کھیل رچایا جا سکتا ہے۔ اور فرض کیا ساتھ چائے پیتے ویڈیو بن گئی تو اس کو کٹ اینڈ پیسٹ کرنے کے بعد وہ ویڈیو بن سکتی ہے جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گی، پھر شاید آپ قرآن پاک جیسی مقدس ترین کتاب پہ بھی ہاتھ رکھ لیں تو اللہ کے علاوہ آپ کی بے گناہی کوئی نہیں سمجھے گا۔

لہذا کبھی بھی وہ قدم نہ اٹھائیں جو شروع میں بہت اور ہر دکھ کا علاج لگے، سوچنے میں خوبصورت لگے مگر درحقیقت کانٹوں پر پھولوں کی پتیاں بچھا جانے کے مترداف ہو، جس پر چلنے سے آپ کا جسم ہی نہیں روح تک زخمی ہو جائے اور کبھی بھی کوئی مرہم ملے نہ کوئی لگائے۔

ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؛ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے امتی ہیں، ہمیں قواعد و ضوابط بتائے سمجھائے گئے ہیں، پھر کس بات کی جلدی ہے؟

وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا، صبر کریں، شکر کریں!

میں صرف جسمانی عزت یا پاکدامنی کی بات نہیں کرتی، اصل بات تو آپ کے ضمیر کی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا سامنا کیسے کریں گے؟

ایک بات یاد رکھیے کہ کوئی بھی دکھ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے مگر جانے انجانے میں کیے گئے بداعمال کا طوق گلے میں پٹا رہتا ہے اور ان کا پچھتاوہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔

لڑکے اور مردوں سے بھی یہ ہی التماس ہے کہ وقتی لذت کا جذبہ آپ کی خوشیوں کا قاتل بھی بن سکتا ہے؛ کسی کو ذلیل و رسوا کرنے والا کہاں کہاں رسوا ہوتا ہے یہ وقت دکھا ہی دیتا ہے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور پڑتی ضرور ہے، جیتے جی بھی اور مر کر توو پکی بات ہے۔

لہذا پیارے لوگو! جب آپ ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچیں گے تو انشاءاللہ بہت فائدہ ہو گا۔

اللہ ہم سب کو نیک اور ہدایت یافتہ بنائے۔ آمین!

زندہ دلانِ لاہور میں سے ایک، ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک اچھی شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، اور اچھا مزاح لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button