لائف سٹائلکالم

ٹرانس جینڈر بھی خدا کی مخلوق ہے!

محمد سہیل مونس

میرا ماننا یہ ہے اور میں ہر جگہ یہ بات کرتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کی تربیت نہیں ہوئی، یہاں کسی کو ماسوائے پیسہ کمانے اور اس کو خرچ کرنے کے کوئی دوسری بات ہوتی ہی نہیں۔ اب اس طرح کے ماحول میں کہ جہاں زر کی ہوس سر چڑھ کر بولتی ہو اعلیٰ انسانی اقدار اور انسانیت ہی کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں عام انسان ایک دوسرے کے شر کا شکار ہیں وہاں ہر مشکل خنسیٰ، خواجہ سراء، ہیجڑے یا پھر ٹرانس جینڈر بھی اسی حقارت اور ظلم کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان بچاروں کی غلطی صرف یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں۔ اگرچہ دوسرے معاشروں میں بھی ان کی حیثیت اتنی نہیں ہے لیکن کم از کم ان کو انسان سمجھ کر کچھ انسانیت کا سلوک تو کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں ان کی زندگی کے برے دن اسی گھر سے شروع ہوتے ہیں جہاں انھوں نے آنکھ کھولی ہو، سب ان سے نفرت کرتے ہیں حتیٰ کہ گلی محلے والے بھی ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں؛ نہ تو انھیں انسان سمجھا جاتا ہے اور نہ ان کے احساسات کا کوئی رتی برابر خیال رکھتا ہے۔ یہ نہایت ہی بے ضرر اور معصوم لوگ ہوتے ہیں لیکن جس معاشرے میں عورت جیسی معصوم اور نازک صنف کی زندگی اجیرن بنا دی جائے وہاں ٹرانس جینڈر بچاروں کی کیا حیثیت!

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں رواں سال کوئی 250 کے قریب خواجہ سراؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے جبکہ پاکستان بننے سے لے کر آج کے دن تک ہزاروں خواجہ سراء موت کی نیند سلا دیئے گئے ہیں۔

اس ظلم کی اصل وجہ تربیت کا فقدان، مذہب سے دوری، جہالت اور معاشرے میں انسانی حقوق کے بارے معلومات کا نہ ہونا ہے۔ ہم اگر ایک معاشرے میں تربیت کو پس پشت ڈال کر ہر طرح کا انقلاب لانے کی کوشش کریں گے تو یہ کوشش بے کار ہو گی کیونکہ جب تک معاشرے میں انسانی حقوق، فرائض کی ادائیگی اور قانون کے بارے آگاہی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کی بات نہیں ہو گی تو مسائل ہی جنم لیں گے۔

جہاں تک مذہب سے دوری کی بات ہے تو آج کل مذہب محض باتوں کی حد تک رہ گیا ہے، کوئی بندہ بشر آج کی تاریخ میں مجھے بتائے جو صبح سویرے اٹھ کر باجماعت نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت اور اس کو باترجمہ پڑھ کر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کشت کرتا ہے، اس طرح کے لوگ سرے سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں، جب آپ کو اپنے مذہب اور اس کے بتائے گئے زریں اصولوں پہ زندگی گزارنے کا علم ہی نہیں ہو گا تو حقوق و فرائض تو گئے تیل لینے ہاں البتہ جہالت کی بات کی جائے تو اس میں ہم ماشاء اللہ سرفہرست ہیں۔

آج سے چند دن قبل ایان ڈولفن نام سے مشہور ٹراس جنڈر اور ان کے دو ساتھیوں سمیت پشاور میں ان کی چلتی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے ان کا ڈرائیور اور یہ تین خواجہ سراء زخمی ہو گئے۔ ان بچاروں کا قصور کیا تھا اس کا علم نہیں چونکہ ان کا والی وارث ہے نہیں ریاست اور معاشرہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرا بیٹھا ہے کسی مسیحاء کے انتظار میں تو وہ تو گئے کام سے البتہ چند انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے لئے آواز اٹھا لیتی ہیں اور وقت کے ساتھ وہ بھی ادھر ادھر ہو جاتی ہیں۔

خواجہ سراؤں کے خلاف اس طرح کا انسانیت سوز رویہ ناقابل برداشت حد تک بڑھتا چلا جا رہا ہے؛ نہ تو ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بچاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں سنجیدہ ہیں اور نہ معاشرے کے دکھ درد کا اظہار کرنے والے افراد ان کی مدد کے لئے آگے آنے واسطے تیار ہیں۔

اس صنف کی برائیاں چند ایک ہی ہوں گی مثلاً ناچ گانا، کھلا ڈھلا بولنا، بدتمیزی والے لہجے میں پیش آنا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ لوگ بھتہ نہیں لیتے، کسی کا ناحق خون نہیں کرتے، کسی کا مال دھوکہ دہی اور فراڈ سے نہیں اینٹھتے، کسی کو اغوا برائے تاوان واسطے نہیں غائب کرتے، یہ لوگ رشوت نہیں لیتے کسی کا کام سفارش لے کر نہیں کرتے۔ یہ لوگ خوراک میں ملاوٹ نہیں کرتے، آٹے کی جگہ چوکر کسی کو نہیں کھلاتے، توشہ خانہ کی قیمتی چیزیں بیچ کر کھا نہیں جاتے، ملاؤں کی طرح پرائی اولادوں کو جنگ کی بھٹی میں پھونک کر ڈالرز کا دھندا نہیں کرتے، سیلاب و زلزلہ زدگان کے لئے آئی امدادوں میں سے ڈنڈی نہیں مارتے۔ ان بچاروں کے تو نہ لندن میں محل ہیں نہ فلیٹس اور نہ کینیڈا میں جزیرے اور نہ پاپا جونز پیزا کے چینز، یہ تو گھنگرو باندھ کر رقص کرتے ہیں اور کوئی ہنر دکھانے کا معاوضہ لیتے ہیں۔ یہ تو ملکی افسرشاہی کی طرح ملک کا بیڑا غرق کر کے اپنے اثاثوں میں اضافہ بھی نہیں کرتے تو پھر ان بچاروں سے اتنی نفرت کیوں؟

ان کے علاوہ معاشرے کی طوائف ان سے بھی زیادہ محروم ہے؛ سوات کے علاقہ بنڑ کی چند باتین اور ویڈیوز دیکھ کر ان لوگوں پر بھی ترس آتا ہی کہ کتنے مصائب سے یہ لوگ گزر رہے ہیں اور کس گھٹن کے ماحول میں زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔

حکومت وقت کو چاہیے کہ ٹراس جنڈرز اور ناچ گانے والے تمام افراد کو تحفظ دیا جائے یا تو اسلامی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی مالی اعانت شروع کر کے ان کو نارمل لوگوں کی طرح معاشرے کا مفید انسان بنانے میں مدد کی جائے یا پھر ان کو اپنے حال پر چھوڑ کر ریاست اور ریاستی ادارے صرف ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے نجات دلائیں۔ ج

ہاں تک بات ہے عام عوام کی تو خدارا ان معصوم لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کر کے ان پر ظلم نہ کیا جائے، یہ بھی انسان ہیں، اگر آپ ناقص شراب اور چرس کے نشہ میں دھت ان بچاروں پہ اپنی مردانگی دکھائیں گے تو اچھے نہیں لگیں گے کیونکہ معصوم لوگوں پر ہاتھ اٹھانا کوئی مردانگی نہیں۔

اس ضمن میں علاقہ کی پولیس و تھانہ سے بھی باز پرس ضرور ہونی چاہیے کیونکہ اگر یہ لوگ انسانی جانوں کے تحفظ پر مامور ہو کر ان کی زندگی سے کھیلنے والوں کا قلع قمع نہیں کر سکتے تو پیٹیاں اتار کر انہی خواجہ سراؤں کی ٹولیوں میں شامل ہو جائیں کیونکہ انہی لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں انہیں ملتا ہے۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button