لائف سٹائل

سویپر: ہماری صفائی کا خیال رکھنے والا سُپر ہیرو

ربیعہ ارشد

سال 2017 میں سندھ کے شہر عمرکوٹ میں 35 سالہ سینیٹری سپروائزر عرفان مسیح افسران کے دباؤ میں آ کر چار ماہ سے بند لائن  کھولنے چلا گیا جہاں وہ اور اس کے دو ساتھی خطرناک گیسز کی وجہ سے بیہوش ہو گئے، ہوش میں آنے کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت جب وہ ہسپتال پہنچے تو بدن پر لگی گندگی کی وجہ سے ڈاکٹروں نے بروقت طبی امداد دینے سے انکار کر دیا اور یوں عرفان مسیح ہسپتال میں ہی دم توڑ گیا۔ اس واقعہ نے نا صرف ڈاکٹرز کی اپنے پیشے سے وعدہ خلافی کو عیاں کیا بلکہ سینیٹری ورکرز کے مسائل کو بھی سامنے لایا۔

کسی بھی شہر، قصبے، سڑکوں اور گلی کوچوں کی صفائی میں خاکروبوں اور سینیٹری ورکرز کا اہم کردار ہوتا ہے۔اس کے باوجود لوگ انہیں تحقیرآمیز القابات (چوڑا یا کچرا اُٹھانے والا) سے پکار کر ان کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ’’غیرمساوی شہری: اقلیتوں کے خلاف نظامی امتیاز کا خاتمہ‘‘ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں سینیٹری ورکرز میں 80 فیصد غیرمسلم بنیادی سکیل ایک سے لے کر 4 تک کم معاوضے پر کام کر رہے ہیں۔ واسا میں دو ہزار دو سو چالیس ملازمین میں 98 فیصد مسیحی ہیں۔

کمیشنر پورٹ میں ان کے کام کے خطرناک حالات، ناکافی حفاظتی لباس اور آلات، ملازمت کے عدم تحفظ اور کم معاوضہ پر بھی بات کی گئی ہے۔ رپورٹ میں چوٹ لگنے اور موت کے واقعات اور غیرمسلم سینیٹری ورکرز کی دل دہلا دینے والی کہانیاں بھی شامل ہیں جنہیں سماجی بے دخلی، معاشرتی بدنامی، امتیازی سلوک اور جان لیوا مین ہولوں میں موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ان حادثات کی وجہ سے مرنے والوں کا کوئی باقاعدہ ڈیٹا موجود نہیں اس لئے اس بات کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا کہ ابھی تک کتنے لوگ اس کام کی وجہ سے مارے جا چکے یا اس کی بدولت بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

تنخواہ میں تاخیر، یومیہ مزدور کی ہراسانی، تہوار پر چھٹی نہ ملنے جیسے مسائل کے ساتھ کچھ سینیٹری ورکرز کے بیانات کے علاوہ سائیکلوجسٹ، ٹراما کونسلر اور محقیقن سے اس مسئلے پر بات کی گئی۔

سینٹری ورکر عمران گل (فرضی نام) کے مطابق سینیٹری ورکرز کو قلیل اُجرت کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ تنخواہ کی بروقت ادائیگی نہ ہونا ہے۔ اکثر تنخواہ کی ادائیگی دو سے تین ماہ کی تاخیر سے ادا کی جاتی ہے۔ سولہ یا بیس برس سے اقلیتی کنٹریکٹ ملازمین کو 19 ہزار ماہانہ تنخواہ دی جا رہی ہے جبکہ ایچ ڈی اے، واسا سویپر مین کو اس مہنگائی کے دور میں صرف 10 ہزار تنخواہ دی جا رہی ہے، جبکہ 14 مہینے گزر جانے کے بعد بھی ان کی کئی ماہ کی تنخواہ التوا کا شکار ہے اور ملازمین بغیر تنخواہ کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

عمران گل شکایت کرتے ہیں کہ کئی برس کنٹریکٹ ملازمت کرنے کے بعد بھی ان کو مستقل نہیں کیا جا رہا، اور پھر جب ایک مزدور کو وقت پر تنخواہ نہیں ملے گی تو  اس کا گھر چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ان کا گھر کا کرایہ، کھانا پینا، بجلی و پانی کے بل اور بچوں کی تعلیم کا خرچہ بروقت نہیں ہو پاتا، ”دن بدن بڑھتی مہنگائی سے  ہم بہت زیادہ پریشان ہیں کیونکہ مسائل کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔”

یونین کونسل جنرل سیکرٹری اور ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر سانگھڑ سنیل کمار کا کہنا ہے کہ کئی تحصیلوں میں سینٹری ورکرز کو 10 سے 14 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے حالانکہ حکومت نے مزدور کی  کم از کم اُجرت 25 ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے لیکن یومیہ اجرت کے ملازمین کو 14 ہزار روپے ماہانہ میں سے بھی کٹوتی کر کے  کسی کو 10500 یا 11 ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ دیہاڑیاں الگ سے کاٹی جاتی ہیں۔

سنیل نے مزید بتایا کہ ابھی مون سون کا سلسلہ چل رہا ہے  سندھ اور پورے پاکستان میں صفائی سٹاف سیلاب کے باوجود 4 فٹ سے زیادہ گہرے پانی میں اتر کر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اس کے باوجود کسی کے دل میں یہ رحم نہیں آتا کہ انہوں نے ملک اور شہر کو صاف رکھنے کی خدمت کی ہے تو ان کی تنخواہ ادا کر دیں، اس کے برعکس اگر کوئی چھٹی سے تھوڑی دیر قبل چلا جائے اور اسی دوران بارش آ جائے تو ان  کی آدھے دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔

سینٹری ورکر کمار شکوہ کرتے ہیں کہ سیوریج  میں بھائیوں کو کسی قسم کا تحفظ نہیں دیا جاتا، وہ ایک پتلی نیکر یا چڈی پہن کر لائن میں اترتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی آکسیجن، سیفٹی کٹ یا میڈیکل الاؤنس نہیں دیا جاتا، ”اگر ہم تحریری درخواست دے بھی دیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ سب خریدنے کیلئے محکمے کے پاس پیسے نہیں ہیں اور ہمیں بطور یومیہ مزدور دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر کام کرنا  ہے تو کریں ورنہ چھوڑ دیں، سیفٹی اقدامات کیلئے علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے بھی درخواست کی مگر انہوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی۔”

سنیل بتاتے ہیں کہ گورنمنٹ کے قانون میں نہیں ہے کہ کسی سرکاری ملازم کی تنخواہ کاٹی جائے لیکن یہاں ریگولر ملازم کو بھی تنخواہ کاٹ کر دی جاتی ہے اور مختلف شوکاز نوٹس دے کر ہراساں بھی کیا جاتا ہے، طوفانی بارش میں بھی ادارے کی طرف سے فی میل سٹاف کو چارج شیٹ دے دی جاتی ہے پھر تین دن کی خواری اور  پیسے کاٹ کر انہیں بحال کیا جاتا ہے جو بہت ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے، ”سینیٹری ورکر محفوظ ہے نہ ہی خوشحال!”

سنیل کا کہنا ہے کہ میونسپل کارپوریشن یا واسا میں آٹھ، دس سال کام کرنے والے سینیٹری ورکروں کو کنٹریکٹ کے نام پر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے، ایک بندہ 25 سال کی عمر میں پرائیویٹ کنٹریکٹ ڈیوٹی پر لگتا ہے تو دس سال بعد اس کو پرائیویٹ کنٹریکٹ ڈیوٹی کیلئے دوبارہ منتخب نہیں کیا جاتا، اسی طرح بہت سے سارے دوستوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر کے اپنی زندگیاں برباد کر لی ہیں۔

کمار نے حکومت سے التماس کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹری ورکرز کیلئے ایسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ سینٹری ورکرز معاشی طور پر خود کو محفوظ تصور کریں۔

سینٹر سپر وائزر میٹرو پولیٹن، جنرل سیکرٹری اتحاد لیبر یونین تنویر اسلم نے بھی مذکورہ مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ 25 سال ملازمت کے بعد حکومتی اصول کے مطابق ریٹائرمنٹ لے سکتے ہیں لیکن لوگ اپنی مجبوریوں کے تحت اس کو جاری رکھتے ہیں۔ پھر پینشن بھی رشوت دے کر ہی ملتی ہے۔

اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر سینٹر فار لا اینڈ جسٹس آصف عقیل نے 2021 میں ’شیم اینڈ سٹگما ان سینی ٹیشن‘ کے نام سے صفائی والوں کے حالات پر ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ صفائی والے اقلیتی ملازمین کی قلیل اُجرت کی وجہ دراصل ان کے کام کی اہمیت کونہ سمجھنا ہے، حالانکہ صفائی کے کام میں بھی دوسرے شعبوں کی طرح تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، متعفن  کچرے یا گٹر اوربند نالے کی صفائی میں صرف کھڑے ہونا نہیں ہوتا، بلکہ ایک تکنیکی پلاننگ کے تحتگٹر کی گیسوں، ان دیکھے جراثیم اور نقصان دہ ٹوٹے آلات سے خود کو بچاتے ہوئے نالے کے راستے کی صفائی کرنا ہوتا ہے، جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

آصف عقیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ غریب ممالک میں صفائی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب لوگ بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو ان ممالک کی صفائی کی بہت تعریف کرتے ہیں، خصوصاً ان کے عوامی ٹوائلٹس کی، جنہیں نہایت صفائی اور مہارت کے ساتھ بنایا جاتا ہے کہ اس کو استعمال کرنے والا چاہے تو اندر سو بھی سکتا ہے، جبکہ غریب ممالک کے عوامی بیت الخلا میں جانا ہی ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیتا ہے۔

سینٹری ورکرز کی کم اُجرت کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ صفائی کا کام اقلیتیں ہی کریں گی، اقلیتوں کو پہلے ہی کمتر تصور کیا جاتا ہے لہذا انہیں معاوضہ بھی کم ہی دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان کے کام کے ساتھ گندگی کا ایک ’سٹگما‘ جڑا ہوتا ہے، جس کچرے کو اُٹھانے کیلئے ہاتھ لگاتے ہیں، معاشرہ کچرے اور اس کے صاف کرنے والے انسان کے ساتھ  ایک جیسا ہی سلوک روا رکھتا ہے، حکومت کے باقی کاموں کیلئے سسٹم موجود ہوتا ہے مگر اس کام کیلئے کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔

پراجیکٹ کوآرڈینیٹر ’سوئپرز ہمارے سپر ہیرو‘ سینٹر فار لاء اینڈ جسٹس پامیلا بھٹی نے کہ اکا دکا کمپنیاں یا محکمے اوور ٹائم کا اضافی معاوضہ ادا کرتی ہیں مگر سینیٹری ورکرز کو اضافی وقت کا معاوضہ نہیں دیا جاتا، یومیہ اجرت کی وجہ سے ان کی کوئی انشورنس نہیں ہوتی۔ یہ کرایے پر رہتے ہیں کیونکہ ان کے لئے کوئی رہائشی کالونیز نہیں ہیں، ان کو گٹر یا لائن کی صفائی کرتے وقت کسی قسم کی حفاظتی کٹ ، ماسک، حفاظتی لباس نہیں دیا جاتا، متعفن گٹر اور سیوریج لائن کی صفائی نہایت خطرناک کام ہے کیونکہ بند گٹر کے اندر زہریلی اور جان لیوا گیسیں (ہائیڈروجن سلفائیڈ، امونیا اور کاربن مونو آکسائیڈ) ہوتی ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ دوران ڈیوٹی مر بھی چکے ہیں۔

ان حادثات سے نمٹنےکیلئے صفائی کے کام کے دوران سینیٹری ورکرز کے حادثات اور اموات کے بارے میں درست اعدادوشمار موجود نہیں حالانکہ ریسرچ اور ڈیٹا کے ذریعے کام کے باعث زخموں اور پیدا ہونے والی بیماریوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، حکومت کو ان کی صحت کے مسائل کے حوالے سے کوئی پالیسی بنانی چاہیے تاکہ دو یا تین ماہ بعد ان کے مفت ٹیسٹ کرائے جائیں تاکہ بروقت تشخیص سے ان کو بیماری کی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے۔ کچرا اُٹھانے کیلئے ہتھ ریڑھی کی بجائے انہیں لوڈر رکشہ وغیرہ دیا جانا چاہیے۔

سائیکلوجسٹ بشری رانی اقلیتی طبقوں میں ذہنی تناؤ کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مرد ہی ہر طبقے میں روٹی کمانے والا ہوتا ہے ایسے میں اس پسے ہوئے طبقے کے مردوں کو ناصرف جسمانی بلکہ ذہنی دباؤ سے بھی گزرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ تہوار جو خوشیوں کی نوید اور خاندان کے اکٹھے ہونے کیلئے کیے جاتے ہیں وہ ان میں اپنا حصہ نہیں ڈال پاتا تو نا صرف وہ بلکہ پورا گھر مایوس ہوتا ہے اور ایسے کمزور لمحوں میں کچھ لوگ حقیقت سے فرار کیلئے نشہ یا غلط کاموں میں بھی پڑ جاتے ہیں یا خود کشی کی کوشش کرتے ہیں ۔

ٹراما کونسلنگ ٹرینر شامین گلزار کہتی ہیں کہ ٹراما یا صدمہ دو لیول کا ہوتا ہے؛ پرائمری اور سیکنڈری۔ پرائمری صدمہ کسی بھی وجہ سے شدید ذہنی تکلیف یا ایذا رسانی کی شکل میں ملتا ہے۔ اقلیتی گروہ میں زیادہ تر انہیں مذہب کی وجہ سے تحقیری نام یا پہچان سے پکارنا، مثلاً چوڑا یا کچرا اُٹھانے والا، جو معاشرے میں تضحیک آمیز کام سمجھا جاتا ہے، بظاہر بگڑے نام سے پکارنا اتنا بُرا نہیں سمجھا جاتا لیکن جن لوگوں کو اس کا شکار بنایا جاتا ہے، ان کی عزت نفس مجروح ہونے کا احساس ٹراما یا صدمے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اگر پرائمری ٹراما کو لاعلاج رہنے دیا جائے تو یہ نسل در نسل بھی منتقل ہوتا ہے، جسے نسلی ٹراما (generational trauma) کہا جاتا ہے۔

سیکنڈری ٹرامایا صدمہ جس میں  کوئی کسی کی تکلیف دہ کہانی سُنتا ہے تو اس کے جذبات و احساسات کو بھی  تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اکثر لوگ اسکی وجہ سے آنسو بھی بہالیتے ہیں، ان کی فیملی یا انکی کہانی سننے والا سیکنڈری ٹراما میں مبتلا ہوسکتا  ہے۔اگر مظلوم  اور فیملی کا ٹراما  لاعلاج رہ جاتا ہے  تو پھر یہ پیچیدہ ٹراماکی شکل اختیار کر لیتا ہے، وہ کہیں بھی وہ نام سنُیں یا حالات کا سامنا کریں تو ان کے صدمے کی تکلیف دوبارہ محرک ہو جاتی ہے۔ جو بعد ازاں ڈیپریشن، ذہنی دباؤ یا  شدید ذہنی تناؤ، غصہ، اضطراب، فوبیا اور جسمانی بیماری کی شکل  میں ظاہر ہوسکتا  ہے ۔

شامین کا کہنا ہے، چونکہ ان لوگوں کی نفسیاتی کونسلر تک رسائی ممکن نہیں ہوتی، اس لئے ان لوگوں کو تھراپی   اور کونسلنگ سیشن کے علاوہ لائف بیسڈ نفسیاتی تعلیم و شعور و آگاہی کے ساتھ کچھ سانس کی مشقوں، یوگا آسن،  فنگر ہولڈنگ تکنیکس سکھانی چاہئیں، کیونکہ ورزش سے جسم میں تناؤ کم کرنے والے یا ’اینڈورفن ہارمونز‘ پیدا ہوں گے جن سے ان کے اندر ابھرنے، زندگی جینے اور مقابلہ کرنے کی ہمت آ سکتی ہے۔

عالمی ادارہ محنت کی سال 2021 کی جنوبی ایشیا میں صفائی کرنے والے محنت کشوں کی ورکشاپ نوٹس کے مطابق بنگلہ دیش اور پاکستان میں صفائی کا کام کرنے والوں کی بڑی تعداد 61 سے 63 فیصد تک غیرتعلیم یافتہ یا کم پڑھی لکھی ہے۔ اسی رپورٹ میں بھارتی قومی کمیشن برائے صفائی کرمچاری نے بتایا کہ 2010 سے 2020 کے درمیان گندے نالوں اور متعفن ٹینک صفائی میں 631 جبکہ جنوبی تامل ناڈو ریاست میں فروری 2012 سے ستمبر 2013 کے درمیان سیوریج سسٹم پر کام کرتے ہوئے 30 کے قریب صفائی کرنے والے محنت کشوں کی اموات ہوئیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ حکومتی اداروں کے علاوہ نجی شعبوں، گھروں اور دیگر مقامات پر بہت زیادہ تعداد میں صفائی کرنے والے محنت کش حفاظتی سامان کے بغیر کام کرتے ہیں، اور پرائیویٹ کام ہونے کی وجہ سے ان کیلیے بچاؤ اور علاج معالجے کے حصول کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں سینیٹری ورکرز کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے گٹروں کی دستی صفائی کی بجائے مشین کے استعمال (جیسا کہ مغربی ممالک میں گندے پانی اور فضلہ براِہ راست انسانی ہاتھوں کی بجائے مشینوں کے ذریعے صاف کیا جاتاہے) سے لے کر مزدوروں کیلئے منصفانہ اجرت، سماجی و معاشی تحفظ اور صحت کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔

اس آرٹیکل کے توسط سے سینیٹری ورکز نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ  انکی تنخواہوں کی ادائیگی بروقت اور بنا کٹوتی بڑھائی جائے تاکہ غریب آدمی کے گھر کاچولہا جلتا رہےاگر مستقل نوکری نہیں دے سکتے تو کم از کم دیگر حفاظتی سہولیات، میڈیکل سہولتیں اور بچوں کی تعلیم مفت دی جائے تاکہ  انکے بچوں کا مستقبل بہتر بن سکے   ورنہ وہ منحوس غریبی چکر کو نسل در نسل محنت سے بھی نہیں توڑ سکتے۔

حکومت کو سینیٹری ملازمین کے تحفظ کیلئے غیررسمی شعبوں میں پالیسی سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کی خدمات حاصل کرنے والے ادارے اور شعبہ جات ان کو حفاظتی ہیلمٹ، سیفٹی بیلٹ، آکسیجن سلنڈر، دستانے، بوٹ اور  ماسک فراہم کرنے کے علاوہ ان کی حفاظتی تربیتی ورکشاپس اور ذہنی صحت کیلئے روزانہ اسمبلی ورزش کو یقینی بنائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button