دہشت گردی ایکٹ اور اقوام مغرب کا کردار
عبدالمعید زبیر
پاکستان میں ہمیشہ عدالتی نظام پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں۔ یہاں قانون بنا تو ہے مگر غریبوں کے لئے۔ غریب مجرم ہو یا بے قصور، وہ چپ کر کے مقدمات کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ اس سے بولنے اور احتجاج کرنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔
قانون اسے سزا دے گا مگر وہ کہاں ہے، کس حالت میں ہے، کسی کو اس کی خبر نہیں دی جاتی، بسا اوقات اس کے مقدمے کی پیروی کرنے والوں کو بھی ڈرا دھمکا کر بٹھا دیا جاتا ہے گویا وہ لاوارثوں کی طرح جیل کی کال کوٹھڑیوں میں پڑا رہتا ہے۔ یہ کسی ایک دو پاکستانیوں کی کہانیاں نہیں، بلکہ ایسے لوگوں سے جیلیں بھری پڑی ہیں جن کی تھانوں اور عدالتوں میں کوئی فائلیں نہیں، گھر والے بھی بھاگ دوڑ کر کے، تھک ہار کر اسے مردہ تصور کر لیتے ہیں اور وہ بے یارو مددگار ظلم کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے۔
پاکستان میں انسداد دہشتگری ایکٹ کے تحت سب سے زیادہ غیر قانونی مقدمات کا شکار مذہبی طبقہ رہا ہے۔ کبھی حق بات کہنے پر، کبھی اداروں کو متنبہ کرنے پر، کبھی محض کسی سے ملنے پر یا تعلق ہونے کی بنا پر گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ نہ کوئی سفید ریش بزرگ بچا اور نہ کوئی انیس بیس سال کا جوان۔ فقط ایک شرعی حکم کہنے کی پاداش میں جید بزرگ علما کو اٹھا لیا جاتا۔ کسی مذہب پسند کو مطلوب شخص سے دوستی کی بنا پر یا کسی تعلق کی بنا پر راتوں رات غائب کردیا جاتا ہے۔ پھر بغیر کسی ریمانڈ یا عدالتی حکم کے سالہا سال جیلوں میں رکھا جاتا ہے، ذہنی و جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ پھر کبھی تو ان مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں اور کبھی کچھ سالوں بعد کچھ بھی ثابت نہ ہونے پر رہا کر دیا جاتا ہے۔
مگر آج تک کوئی ان سے سوال نہیں کر سکا کہ لاشیں مسخ کرنے کی نوبت کیوں آئی، جعلی پولیس مقابلے کیوں کروائے گئے؟ اگر مجرم تھے تو عدالت سے سزا کیوں نہیں دلوائی گئی اور اگر مجرم تھا ہی نہیں، تو جو انہیں اتنے سال جیلوں میں رکھا گیا، تشدد کیا گیا، گھر والوں کو ذہنی اور مالی اذیت سے دوچار کیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
اکثر تو ایسے ہیں جو دس دس، بیس بیس سالوں سے جیلوں میں پڑے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ کسی انسانی حقوق کی تنظیم یا ادارے نے اس پر نوٹس نہیں لیا۔ کبھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ حتی کہ کبھی مذمت تک نہیں کی گئی۔
لیکن آج پاکستان میں جب ایک فرد پر صرف مقدمہ ہوا، جو کہ گرفتار بھی نہیں کیا گیا، تو دوسری طرف اقوام متحدہ نے واویلا مچانا شروع کر دیا، انسانی حقوق انگڑائیاں لینے لگ گیا۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی ورلڈ سمیت سارے مغربی میڈیا نے اس ایف آئی آر پر شور مچا رہا ہے، اس پر پروگرام کرنا شروع کر دیے۔ اقوام متحدہ نوٹس جاری کر رہی ہے۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار پروفیسرز چیف جسٹس کو خط لکھ رہے ہیں۔ این جی اوز متحرک ہو چکی ہیں۔ یہ سب وہی ادارے اور میڈیا چینلز ہیں، جو آج تک افغانستان میں کارپیٹ بمباری کا نوٹس نہیں لے سکے، اجڑے شہر اور ویران ہوتی بستیوں پر چپ سادھے بیٹھے رہے۔ کشمیر میں لٹتی عزتوں اور کٹتے لاشوں پر احتجاج تک نہیں کر سکے، فلسطین میں منہدم ہوتی بستیاں، نسل کشی، ظلم و بربریت کسی کو نظر نہیں آئی۔ وہاں کی چیختی ماؤں کی آوازیں کوئی نا سن سکا، عراق، شام، برما سمیت دیگر ممالک میں ہونے والے ظلم و ستم، قتل و غارت گری پر کبھی کسی نے مگر مچھ کے آنسو تک نہیں بہا سکے، کبھی کسی مظلوم کی داد رسی نہیں کی۔ کبھی کسی ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکے، کبھی کسی کو وارننگ تک نہیں دے سکے۔ مگر آج اس ایک ایف آئی آر پر اتنی تکلیف ہوئی کہ ہر جگہ شور مچانا شروع کر دیا۔
مذہب پسند لوگوں کو سائیڈ پر کر کے بھی دیکھا جائے تو اسی ملک پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے جوڈیشل ایکٹوازم کی وجہ سے وزیر اعظم برطرفی ہوئے، تین تین ماہ پھانسی کی کال کوٹھڑی میں رہے، عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں، پارٹی لیڈر بدترین عدالتی ناانصافیوں کا شکار رہے، مگر اقوام متحدہ سمیت کسی انسانی تنظیم یا مغربی میڈیا کو ظلم ہوتا نظر نہیں آیا۔ آخر یہ کیا وجہ ہے؟
کیا ایسا تو نہیں کہ حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے خدشات درست ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مغربی طاقتیں اپنے پراجیکٹ کو خراب ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ جس سے ان انویسٹمنٹ ضائع ہو جائے۔ ان کی سالوں کی محنت کھائی میں پڑ جائے۔ کیا یہی تکلیف انہیں بےچین تو نہیں کر رہی ہے؟
اگر ایسا ہے تو اس قوم کو بیدار ہونا ہو گا اسے راہبری میں چھپا راہزن پہچاننا ہوگا اسلام اور شریعت کے خودساختہ شارح کا راستہ روکنا ہو گا انہیں پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب، ثقافت اور اخلاقیات کو بچانا ہوگا تاکہ پاکستان بھی بچ سکے ہماری نوجوان نسل بھی۔
نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔