عبد المعید زبیر
آج کل دنیا میں سارا سال مختلف "ڈے” منائے جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کبھی ماں کا دن، کبھی باپ کا دن، کبھی مزدوروں کا دن اور کبھی عورتوں کے حقوق کا دن وغیرہ۔ ان ایام سے قوم میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر وہ شعور اور جزبہ اسی ایک دن میں پیدا ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ گویا یہ ایام ہمارے اندر یومیہ جزبہ پیدا ہوتا ہےجیسے ہی وہ دن گزرا، وہ جزبہ بھی ہوا ہو جاتا ہے۔ بلکہ اب تو ہمارا مزاج ہی یہ بن گیا ہے کہ ہماری خوشی یا غمی وقتی ہوتی ہے، بس جیسے ہی رات گزری، اگلے دن سب کچھ نیا ہوتا ہے۔
اسی اگست کے مہینے میں محرم گزرا تو ہر طرف یوں لگنے لگا کہ سارے ہی حسینی ہیں۔ یزیدیت تو شاید عنقا ہو چکی ہے۔ ہر طرف مظلوموں کے چرچے، ان کی شہادت کے واقعات، ان کی بہادری اور غیرت کے قصے، ان کی جرات اور استقامت علی الدین کا تصور پیش کیا جاتا رہا۔ کہ اگر حسین نہ ڈٹتے تو آج ہر طرف یزیدیت ہوتی، ظلم ہوتا، عورتوں کی عصمت دری ہوتی، بچوں کی لاشے جگہ جگہ نظر اتے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ڈٹ گئے، کٹ گئے مگر ظالم اور اس کے ظلم کے سامنے جھکے نہیں۔ یہ سب سن کر، دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگا کہ واقعی ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ یہاں حیوانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں ظالموں سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہاں تو مظلوموں کی آہ پر دریا چیر دیے جاتے ہیں۔
چند دن بعد چودہ اگست آئی تو ہر طرف آزادی کی باتیں ہونے لگیں۔ غلامی سے نفرت اور آزادی کے فضائل سننے کو ملی۔ آزادی کے حصول کے لیے جن ماؤں بہنوں اور بھائیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے، انہیں خراج تحسین پیش کیا جانے لگا۔ ان کی قربانیوں کے قصے سنائے گئے، احساس ہونے لگا کہ واقعی آزادی بڑی نعمت ہے۔ شکر اللہ کا کہ ہم آزاد ہو گئے ورنہ آج بھی انگریز کی غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ ظلم کی چکی ہمیں پیس رہی ہوتی۔ ہماری مائیں بہنیں انگریزوں کے ظلم کا شکار ہو رہی ہوتیں۔ خدا کا کرم ہوا کہ ہم آزاد ہوئے اور ہر ظلم سے نجات مل گئی۔
مگر یہ کیا ہوا کہ ابھی محرم الحرام بھی نہیں گزرا، ابھی تو آزادی کے نعروں کی آوازیں بھی کانوں میں گونج رہی تھیں کہ فیصل آباد کی ایک معصوم لڑکی کی آہ بکا سنائی دی۔ جسے اس کی بہترین دوست نے درندگی کا نشانہ بنا دیا۔ یکدم یوں لگا کہ نہیں نہیں، ابھی یزیدیت زندہ ہے، ابھی ظالم دندناتا پھر رہا ہے۔ ایک مظلوم کی آہ پر دریا چیر دینے کے واقعات بھی صرف افسانے ہی ہیں۔ ابھی ہم غلام ہیں۔ ہمیں آزادی کے نام پر شاید دھوکہ دیا گیا ہے۔ ابھی بھی ہماری عزتیں محفوظ نہیں۔ ابھی بھی انگریز ہماری عزتوں سے کھیل رہے ہیں۔ شاید ابھی بھی اسلام سے قبل کے لوگ زندہ ہیں، جن کے ہاتھوں میں عورت کھلونا تھی۔ جب چاہا مار دیا اور چاہا نچوا دیا، جب چاہا بستر گرم کیا اور جب چاہا بیچ دیا۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق دانش شیخ کی بیٹی انا شیخ جو کہ پنجاب کالج کی میڈیکل کی فائنل ایئر کی طالبہ خدیجہ کی کلوز فرینڈ تھی جس کی وجہ سے خدیجہ کا انا شیخ کے گھر آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ دانش شیخ کا اپنی بیٹی کی سہیلی پر دل آیا تو ان کے گھر رشتہ بھجوا دیا جو بڑی عمر ہونے کی وجہ سے رد کر دیا گیا لیکن دولت اور تعلقات کی طاقت نے یہ توہین گوارا نہیں کی کہ انہیں انکار کیا جائے۔ لہذا دانش شیخ نے چند افراد کے ساتھ اسلحہ کے زور پر لڑکی کو بھائی سمیت اغوا کیا۔ گھر لا کر تشدد کیا، جوتیاں چٹوائیں، معافیاں منگوائیں، بال کاٹے، ایک آنکھ کی بھنویں کاٹ دیں۔ زیادتی کی کوشش کی اور ڈرا دھمکا کر بھیج دیا اور ان سب کاموں کی ویڈیو بنائی گئی جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شیئر کی گئی۔ ایک انسان اور عورت کی اس سے بڑی تذلیل کیا ہو سکتی ہے؟ شاید اسے مار دیا جاتا تو اتنی تکلیف نہ ہوتی جو اسے اب پہنچائی گئی۔
یہاں بہت سے سوال جنم لیتے ہیں کہ حسینیت کہاں گئی؟ آزادی کے فلک شگاف نعروں کی گونج کہاں دب گئی۔ دوسری طرف قانون کہاں کھڑا ہے؟ اس کی ذمہ داری کیا ہے۔ کیا قانون اپنا فرض نبھا رہا ہے؟ کیا یہاں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو کوئی سزا ملتی ہے؟ اس واقعے کے اصل کرداروں کو اول تو گرفتار کرنے میں دیر لگا دی گئی۔ جب گرفتار کر ہی لیا تو کل سے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ شاید ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ بالفرض ابھی رہائی نہ بھی ہوئی ہو تو ظالم ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر رہا ہو جائے گا کیوں کہ یہ وہی دھرتی ہے جہاں کبھی پسند کی شادی پر عورت کو مار دیا جاتا ہے تو کبھی جہیز نہ لانے پر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بڑوں کے حکم پر زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے تو کبھی شوہر غلامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بستر گرم نہ کرنے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی غیرت کے نام پر پاتال میں اتار دیا جاتا ہے۔ قانون خاموش رہتا ہے اور ہم ہر دفعہ کچھ دیر آواز اٹھا کر اگلے واقعے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، جو مجرم کو مزید قوت دیتا ہے۔
یہاں مظلوم خدیجہ پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ جب شریعت نے مردوں سے اختلاط پر منع کیا تھا تو اپنی دوست کے والد سے تعلقات بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ سہیلی سے دوستی اس حد تک بڑھائی کہ اس کے گھر بھی آنا جانا لگائے رکھا۔ مگر یہاں جب بھی شریعت کی یا پردے کی بات کی جائے تو ہمیں روشن خیالی کی یاد ستانے لگتی ہے۔ اس واقعے کے توسط سے ہماری نوجوان نسل کو بزرگوں کا یہ پیغام ہے کہ دشمن کی تلوار سے تو بچا جا سکتا ہے لیکن دوست کے وار سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ دوستی دیکھ سوچ کر کرنی چاہیے اور پھر دوستی میں حدود کے اندر ہی رہنا چاہیے۔ یہاں عورت نے دوست بن کر اپنا اعتماد بحال کر کے دوسری عورت کی عزت خاک میں ملا دی۔
ہمارے معاشرے میں اگرچہ مردوں کو ہی عورتوں کا دشمن تصور کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہے۔ جو کبھی دوست بن کر، کبھی نند بن کر، کبھی بہن بن کر، کبھی سوتن بن کر اور کبھی ساس کے روپ میں بالواسطہ بلاواسطہ دشمنی نبھاتی ہیں اکثر واقعات کے پیچھے یہی عورت ہوتی ہے۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بچانا ہے تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنا ہو گی۔ جو ظالم کو ظلم سے روکتی ہے۔ مظلوم کی داد رسی کرتی ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں۔ انہیں گھٹی میں ہی انسانیت اور تہذیب دے سکیں۔ ان کی پرورش ہی اسلامی پرائے میں کریں تاکہ یہ نوجوان اپنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی عزتوں کا محافظ بن سکے، ان کے جذبات و احساسات یومیہ نہ ہوں بلکہ تادم آخر ان کا ساتھ نبھائیں۔