کالمکھیل

پاک بھارت کرکٹ تعلقات کی بحالی ناگزیر ہے

خیرالسلام

ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) نے رواں ماہ متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانے والی ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق ٹورنامنٹ کا آغاز 27 اگست سے افغانستان اور سری لنکا کے مابین کھیلے جانے والے میچ سے ہو گا جبکہ اگلے روز یعنی 28 اگست کو دنیائے کرکٹ کے دو بڑے اور روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں میدان میں اتریں گی، کروڑوں شائقین کے علاوہ تجزیہ نگاروں اور کرکٹ پنڈتوں کو اس میچ کا شدت کے ساتھ انتظار ہے۔ چونکہ پاک بھارت میچ ہمیشہ کانٹے دار اور اعصابی تناؤ سے لبریز ہوتے ہیں لہذا شائقین کی دلچسپی کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

28 اگست کو ہونے والے پاک بھارت میچ کی سنسنی خیزی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو نے بزریعہ ٹویٹر یہ پیغام جاری کیا ہے کہ شائقین 28 اگست کی تاریخ کو یاد رکھیں۔ "مارک یوور کیلینڈر” کی کیپشن والے اس پیغام کو شائقین کی جانب سے بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے۔

اے سی سی شیڈول کے مطابق پہلے مرحلے کے بعد دونوں گروپس سے دو دو ٹیمیں سپر فور مرحلے کے لیے کوالیفائی کریں گی اور پھر فائنل میں ٹائٹل ہولڈر ٹیم کا فیصلہ ہو گا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اب کی بار بھی دونوں ٹیموں نے اپنے فیورٹ دبئی اور شارجہ کے گراؤنڈ پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونا ہے۔ دبئی میں فائنل سمیت ایشیا کپ کی دس میچز کھیلیں جائیں گے جبکہ شارجہ نے تین میچوں کی میزبانی کرنی ہے۔

پاکستان نے گزشتہ سال آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ایک میچ میں کپتان بابر اعظم اور وکٹ کیپر بلے باز رضوان احمد کی شاندار بلے بازی کی بدولت بھارت کو دس وکٹوں کے ایک بڑے مارجن سے شکست دی تھی اور اب اگر دونوں روایتی حریف ایشیا کپ کے فائنل میں مدمقابل آتے ہیں تو شائقین کو ایک عرصے بعد نہایت دلچسپ اور کانٹے دار فائنل دیکھنے کو ملے گا۔

پاک بھارت کرکٹ کی تاریخ سنسنی خیز اور کانٹے دار مقابلوں سے عبارت ہے، ان میچوں میں دونوں ممالک کے کھلاڑی شریک نہیں ہوتے بلکہ دونوں ٹیموں کو کروڑوں شائقین کی سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے جن کے دل ہر گیند کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور سانسیں ہر اسٹروک کے ساتھ بے قابو ہو کر انہیں مزید دلچسپ بناتے ہیں۔

کرکٹ وزڈن المنارک کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق ایشز سیریز کے بعد اگر کسی کرکٹ میچ کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوتی ہے تو وہ پاک بھارت کرکٹ میچز ہیں جنہیں براہ راست دیکھنے کی خاطر اگر ایک طرف ہزاروں شائقین گراؤنڈ کا رخ کرتے ہیں تو دوسری جانب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان میچوں سے لطف اندوز ہونے والے افراد کی تعداد کروڑوں سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کئی بار اعتراف کر چکی ہے کہ پاک بھارت کرکٹ میچ سے جتنا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے دیگر ٹیموں کے مابین کھیلی جانے والی مکمل کرکٹ سیریز سے بھی اتنی آمدنی نہیں ہوتی۔

بات صرف گراؤنڈز میں بیٹھے شائقین تک محدود نہیں بلکہ پاک بھارت کرکٹ مقابلوں کے میڈیا رائٹس حصول کی خاطر دنیا بھر کے نشریاتی ادارے آئی سی سی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جنہیں منہ مانگی قیمت پر ان میچوں کے نشریاتی حقوق خریدنے پڑتے ہیں۔

لیکن باوجود دنیا بھر میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہونے کے پاک بھارت کرکٹ روابط گزشتہ تین دہائیوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ ممبئی بم دھماکوں کے بعد بھارتی حکومت نے اس جانب کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی، دونوں ممالک کے کھلاڑی اگرچہ دوطرفہ کرکٹ روابط کی بحالی کے خواہاں ہیں لیکن بھارت ہر بار اسے حکومتی کلیئرنس سے مشروط کر کے سرد خانے کی نذر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اور اب پاک بھارت کرکٹ روابط کی بحالی محض سراب بن گئی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہمیشہ اس بارے مثبت پیش رفت کی کوشش کی لیکن دوسری جانب سے مسلسل انکار کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ سال 16-2015 میں بگ تھری معاملے بارے جب بھارتی کرکٹ بورڈ کو پی سی بی کی مکمل حمایت کی ضرورت پیش آئی تو دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈ سربراہوں نے ایک ایم او یو (مفاہمتی یادداشت) پر دستخط کیے جس کے تحت آئی سی سی ٹور شیڈول کے مطابق اگلے سات سالوں یعنی 2023 تک بھارت نے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ دوطرفہ کرکٹ سیریز جاری رکھنا تھی۔

اس معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے سربراہ سابق سفیر شہریار خان نے بڑی تندہی کے ساتھ کام کیا اپنے ہم منصب(این سری نواسن) کو رام کرنے کی خاطر انہوں نے پڑوسی ملک کے کئی دورے بھی کیے لیکن بی سی سی آئی چیئرمین کے دل میں فتور تھا۔

بگ تھری ایشو بارے پاکستان کرکٹ بورڈ کا ووٹ بھی سی سی آئی چیئرمین کے حق میں چلا گیا جس سے وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے مسند صدارت پر بیٹھ گئے لیکن بعد میں وہ اپنے وعدے سے یہ کہتے ہوئے صاف مکر گئے کہ ان کی نظر میں ایم او یو کی حیثیت کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ کچھ نہیں۔

پی سی بی اس معاملے کو کھیلوں کے عالمی ثالثی عدالت لے گیا تاہم ناقص پلاننگ اور کمزور ٹیم ورک کی بدولت انہیں اپنے موقف کے دفاع میں ناکامی ہوئی لہذا پاک بھارت کرکٹ کے احیا کا خواب اب خواب خرگوش بنا ہوا ہے۔

ماقبل بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کی تھی ۔حالانکہ 2008 کے پہلے ایڈیشن کے دوران پاکستانی کرکٹرز بالخصوص سہیل تنویر کی ریکارڈ ساز کارکردگی نے ہندو پنڈتوں کی سیٹی گم کر دی تھی۔ باوجود اس کے وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ دوطرفہ کرکٹ سیریز کھیلنے پر آمادہ نہیں۔

ایشیا کپ کے نتائج سے قطع نظر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو اس بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔

Salam Seb
خیرالسلام چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی ہیں اور پشاورکے ایک موقر اخبار کے ساتھ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک بطور سپورٹس ایڈیٹر وابستہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینیات اور سیاسیات سے بھی شغف رکھتے اور وقتاً فوقتاً مقامی اخبارات میں اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button