لائف سٹائلکالم

ٹائیگرز بچائیں، فطرت بچائیں، فخر بچائیں

عبدالمعید زبیر

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 29 جولائی کو ٹائیگرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کسی بھی دن کے منانے کا مقصد اس چیز کی اہمیت کو اجاگر کرنا، لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے، جس سے وہ غافل ہوتے ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد بھی ٹائیگرز کی نسل کی حفاظت اور انہیں قدرتی ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس وقت فکر کی بات ان کا ناپید ہوتا وجود ہے۔ دن بدن ان کی گرتی ہوئی آبادی ہے۔ ہم لوگ اپنی بہادری اور شجاعت کی مثالیں پیش کرنے کے لیے تو شیر کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں، مگر اس کے وجود سے بالکل بے خبر ہیں کہ وہ اس وقت کن مشکلات سے گزر رہا ہے۔ جو جانور طاقت اور قوت میں اپنی مثال رکھتا ہے، جو بے پناہ خوبیوں کا حامل اور مشہور و معروف جانور ہے، جسے ہم جنگل کا بادشاہ کہتے رہے ہیں، آج وہ اپنے اسی جنگل میں اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔

ہر سال 29 جولائی کو جہاں دنیا بھر میں اس دن کو منایا جاتا ہے، تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، سیمینارز کا اہتمام ہوتا ہے، نئے عزم ہوتے ہیں، وہیں پاکستان میں بھی چڑیا گھروں کے اندر خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ سال لاہور کے چڑیا گھر میں خصوصی تقریب میں بچوں کو ٹائیگرز کے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔ ان کی دلچسپی کے لیے حنوط شدہ ٹائیگرز رکھے گئے۔ ان کی دلچسپی کے لیے مختلف گیمز بھی کروائی گئیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں ایسی تقریبات بہت ہی کم ہوتی ہیں۔

اس تاریخ کا آغاز کرنے کے لیے 2010 کے اندر 13 ممالک نے بین الاقوامی فورم "ٹائیگر سمٹ” میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کے سلسلے میں شرکت کی۔ اور 2010-2022 تک کے منصوبے میں ان کی تعداد میں دو گناہ اضافہ کرنے کا عزم کیا گیا تاکہ ان کی افزائش نسل کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکے۔

ٹائیگر کئی ممالک خصوصاً ایشیائی ممالک کا جانور ہے۔ اسے دنیا کے خطرناک ترین جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں جو بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، برما، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، ویت نام، چین، روس اور مختلف اشیائی ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف ایشیاء میں جہاں کبھی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، آج ساڑھے تین ہزار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ مختلف ممالک میں اب ان کی افزائش نسل کے لیے تنظیمیں سرگرم ہیں۔

اس وقت دو ممالک کی کوششیں حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روس اور دوسرا انڈیا۔ روس میں جنگلی جانوروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شہری اس معاملے میں حکومت کا دست بازو بنے ہیں۔ 2013 میں روسی صدر نے جنگلی جانوروں کی فروخت اور ان کے قتل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے فیصلے پر دستخط کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیرقانونی شکار کے خلاف جنگ کو مضبوط کیا۔

ماہرین کے مطابق ٹائیگرز کی اکثریت انڈیا میں پائی جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں تو ایک لاکھ سے زائد تھے مگر شاہی خاندانوں اور برطانوی افسروں کے شکار سے ان کی تعداد بہت کم ہو گئی۔ مگر اب نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ "سینٹ پیٹرزبرگ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ 2022 تک شیروں کی آبادی دوگنا کرنی ہو گی۔ لیکن انڈیا نے چار سال پہلے ہی یہ عزم پورا کر لیا” ان کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں انڈیا ٹائیگرز کے لیے سب سے بڑا اور محفوظ مقام بن گیا ہے۔

دنیا بھر میں ٹائیگرز کے لیے سب سے زیادہ خطرہ خود انسان ہے۔ اس کے اعضاء کی مانگ زیادہ ہونے کی وجہ غیرقانونی شکار اور تجارت میں اضافہ نظر آیا ہے۔ کیوں کہ اس کی کھال بہت قیمتی ہے۔ اس کی ہڈیوں کو چین میں روایتی علاج کے لیے دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاؤہ ٹائیگرز کی فطرت ہے کہ وہ آزاد اور بڑے علاقوں میں اکیلے رہنے کے عادی ہیں۔ مگر انسانی آبادی کے بڑھنے سے عمارتیں، سڑکیں، اور زراعت کے لئے زمین کو کارآمد بنایا جا رہا ہے۔ ان منصوبوں کی وجہ سے ٹائیگرز کے لیے دستیاب اراضی کم پڑ رہی ہے۔ ان کے علاقے بٹ رہے ہیں جو ان کی افزائش نسل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جنگلات کی کمی کی وجہ سے یہ انسانی بستیوں کا رخ کرتے ہیں، انہیں نقصان پہنچاتے ہیں جس کی وجہ سے انسانوں کو اپنی حفاظت اور دفاع کے پیش نظر انہیں مارنا پڑتا ہے۔

جب ان کی کثرت پائی جاتی تھی تو لوگ کھیل اور بہادری دکھانے کے لیے ان کا شکار کرتے تھے جو ان کی نسل کشی کا سبب بنتا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انسان ٹائیگرز کا شکار کرے تو اسے کھیل کہا جاتا ہے اور جب ٹائیگرز شکار کریں تو اسے بے رحمی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ہماری پالیسیوں کی بدولت انہیں انسانی بستیوں میں گھسنا پڑ جاتا ہے۔

ٹائیگرز تو خوبصورتی، بہادری، طاقت اور قومیت کی علامت ہے لہذا ٹائیگرز کو بچائیں، فطرت کو بچائیں، فخر کو بچائیں۔ ان کے غیرقانونی شکار اور تجارت کو روکیں۔ ان کی رہائش گاہوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ ان کی رہائش گاہوں کے درمیان روابط پیدا کیے جائیں، جس سے انہیں گھومنے اور آزاد ماحول کی سہولت میسر آتی ہے۔

ان کے تحفظ کے لیے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے جو ان کے لیے اپنی سرپرستی میں انتظامات کریں۔ خصوصاً ہمارے ملک میں جو لوگ شیر کے نشان پر ووٹ مانگتے ہیں، اپنی بہادری کو شیر سے تشبیہہ دیتے ہیں، ان کا تو حق بنتا ہے کہ ان کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔ اس کی افزائش نسل کا اہتمام کریں۔ یہ ان کی پبلسٹی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ سب سے اہم یہ کہ ان کی نسل ناپید ہونے سے بچے گی۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button