لائف سٹائلکالم

”دنیا جل رہی ہے اور حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں”

محمد سہیل مونس

آج سے چند برس قبل موسمی تغیر و تبدل کے بارے میں ایک بھرپور تحریر لکھی تھی جس میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں کافی شدومد کے ساتھ حقائق سامنے لے آیا تھا۔ دنیا کے بیشتر ماہرین اس بارے میں خدشات کا اندازہ لگاتے آ رہے ہیں لیکن اس مفاد پرست اور انسانیت دشمن دنیا میں کوئی بھی اس جانب سنجیدہ سوچ کے ساتھ میدان عمل میں نہیں اترتا کہ آنے والی نسلوں کا کیا ہو گا۔

ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترہس نے عالمی سربراہوں کو خبردار کیا ہے کہ دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کی ایک اہم وجہ فوسل فیول کا بے دریغ استعمال ہے جس کے استعمال میں انویسٹرز اور بڑی طاقتیں مسلسل پیسہ لگا رہی ہیں جبکہ اس پر سبسڈیز دے کر عوام کو اس طرف تسلسل سے راغب کر رہی ہیں۔ اس وقت کوئلہ، تیل اور گیس پر دنیا میں گیارہ ملین ڈالرز فی منٹ خرچ ہو رہا ہے۔ گوتیرس نے مزید کہا کہ روم کی طرح پوری دنیا جل رہی ہے اور اس کے حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کا درجہ حرارت انرجی کے اس بے ہنگم استعمال سے بڑھ رہا ہے جو قحط، سیلابوں اور طوفانوں کا سبب بن رہا ہے، اسی طرح گلیشئیرز کا پگھلنا اور جنگلوں میں آئے روز آگ کا بھڑک اٹھنا خطرے کی گھنٹی ثابت ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہو گا اور انرجی کے حصول کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی کیونکہ اگر اسی ریت پر ہم قائم رہے تو اس گلوب پر زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ اس ضمن میں جی 20 ممالک نے خصوصاً 2030 اوردیگر دنیا نے عمومی طور پر سن 2040 تک انرجی کے نئے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہ ہمیں اس ضمن میں پانچ ضروری کام کرنا ہوں گے؛ پہلا یہ کہ انرجی کے نئے ذرائع تلاش کر کے دنیا کی باقی اقوام کے ساتھ شئیر کرنا ہوں گے، دوسرا کام یہ کرنا ہو گا کہ اس انرجی تک رسائی کے لئے آسان طریقہ کار وضع کرنا ہو گا۔ تیسرا کام یہ کہ ہمیں متبادل انرجی کے حصول کے لئے شمسی توانائی اور پن چکیوں کی مدد لینا ہو گی جبکہ اس کے لئے نئے طرز کے گرڈ اسٹیشنز اور اس کی توسیع کا کام فوراً شروع کرنا ہو گا۔ اس کام کو کرنے میں یورپ کو تقریباً آٹھ سال اور امریکہ کو دس سال لگیں گے۔ چوتھا کام دنیا کو فوسل فیول انرجی سے متبادل ذرائع پر منتقل کرنے کا گھمبیر مرحلہ ہے اور اس ٹرانزیشن پیریڈ میں عوام کو پیش آنے والے مسائل ہیں جس کا حل کسی نہ کسی طریقے سے ڈھونڈنا ہو گا۔ پانچواں کام اس مقصد کے لئے مالیاتی اداروں یعنی بینکس اور دیگر انوسٹمنٹ اداروں کو باہمی مشاورت اور کوششوں سے اس کو عملی جامہ پہنانا ہو گا تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے سے ماحولیاتی ماہرین کی جانب سے وقتاً فوقتاً خبردار ہوتے رہے ہیں کہ ہر سال درجہ حرارت میں 1.5 کا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور اگر یہی حال رہا تو اس عشرہ کے آخر تک 13 سے 14 سنٹی گریڈ کا اضافہ ممکن ہو سکتا ہے جو کہ اس گلوب پر زندگی گزارنے کے لئے نہایت ہی مشکل ہے۔ اس وقت اوسط درجہ حرارت اگر 45 درجہ سینٹی گریڈ بھی ہے تو اس صدی کے نصف تک 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے ہر سال اضافہ سے دنیا رہنے قابل نہیں رہے گی۔ ہم نے اگر اب سے تہیہ کر لیا اور فوسل فیول سے کناری کشی اختیار کرنے کے لئے متبادل راستے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوئے تو ممکن ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک خوشگوار کل دیکھ سکیں۔

ہم بحیثیت انسان معلوم نہیں کہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ دوڑ نہ جانے کیسی دوڑ ہے اس کا اختتام ہے بھی کہ نہیں یا کہ بس ہم دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک بے ہنگم سی زندگی چاہے وہ یورپ کے کسی باسی کی ہو یا کسی تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے کی، اگر وہاں زندگی کی ساری سہولتیں ہیں تو تب بھی انسان پریشان کیونکہ ان سہولتوں کے بدلے جو ان کا تیل نچوڑا جاتا ہے وہ وہی لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح تیسری دنیا کے ممالک میں اگر زندگی جہنم سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے تو اس کا علم صرف اس خطے کے باسیوں کو ہے۔

اصل کہانی یہ ہے کہ دنیا کی اشرافیہ دھن دولت کی کمائی میں ایسی مگن ہے کہ ان کو انسانیت کی بے چارگی اور تکلیفیں نظر نہیں آ رہیں۔ آج کی دنیا کا کوئی سا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں اس میں ہر مہینے کے امیر ترین افراد کی دولت اور ان کے اثاثہ جات کی خبریں جلی حروف میں لکھی ہوں گی لیکن کسی غریب کے دکھ درد کی کہانی شاذ ہی دکھائی دے گی۔انسانیت کو گلیمر اور وقتی چکاچوند میں محو رکھ کر یہ اشرافیہ اپنا بینک بیلنس بڑھا رہا ہے اور دنیا میں نت نئے کھیل کھیلتا چلا جا رہا ہے جیسے ایلان مسک کے دعوے اور بل گیٹس کے کارنامے جو کہ ایک مائیکرو سافٹ کمپنی کے کرتا دھرتا ہیں لیکن ان کو شوق اٹھا ہے موذی بیماریوں کی روک تھام کا جبکہ سب کو علم ہے کہ موذی امراض کے جرثومے تیار کہاں ہوتے ہیں اور اس کے تجرابات کہاں ہوتے ہیں اور پھر ا س کے تریاق کون ایجاد کر کے لاتا ہے۔

ان لوگوں نے جو خلائی مشنز اور تسلسل سے خلائی تجربات کو شروع کیا ہوا ہے اس بات سے انکار نہیں کہ آنے والے وقت میں یہ لوگ انسانیت کو اسی جہنم میں چھوڑ چھاڑ کر نہ جانے کس سیارے نکل کھڑے ہوں۔ جہاں تک گوتیرس کی بات ہے تو دل کو تو لگنے والی ہے لیکن یہی اقوام متحدہ ہے جو بڑی طاقتوں کو عراق پر محض جھوٹ کی بنیاد پر چڑھائی سے نہیں روک سکتا، یہی پلیٹ فارم ہے جس کی چھتری تلے یہی ممالک اپنے مفادات کا تحفظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اب اللہ کرے کہ دنیا کے حکمرانوں کو عقل آئے اور وہ گوتیرس کی بات مان لیں کیونکہ نہ صرف غریب اقوام اس دھرتی پہ بستے ہیں بلکہ ان کی اولادیں بھی اسی خاک پر زندگی کے دن رات بتا رہے ہیں، کیا وہ اپنی اولادوں کے لئے دنیا سے جاتے ہوئے جہنم چھوڑنا چاہتے ہیں؟

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button