سیاستکالم

آئینی عہدے اور سیاسی بونے

ارشد علی خان

مملکت خداد پاکستان میں چونکہ پارلیمانی نظام جاری و ساری ہے، اگرچہ مختلف اوقات میں صدارتی نظام کا شوشہ بھی اٹھایا جاتا ہے تاہم تادم تحریر صدارتی نظام نافذ کرنے کی باتیں صرف باتیں ہی ہیں۔

پارلیمانی نظام میں کچھ عہدے علامتی یا آئینی ہوتے ہیں جیسے صدرمملکت، سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی، چیئرمین سینٹ اور گورنرز۔

ان تمام علامتی عہدوں پر حکمران جماعت کے لوگوں کو ہی نامزد کیا جاتا ہے تاہم وہ کھلم کھلا اپنی جماعت کی ترجمانی نہیں کرتے، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تمام جماعتوں کی بات سنی جائے اور سب کو ساتھ لے کر ایوان یا ملک کی کارروائی آگے بڑھائی جائے۔

آئین پاکستان کے مطابق صدر وفاق کا سربراہ ہوتا ہے اور پارلیمانی نظام میں صدر مملکت کا عہدہ غیرانتظامی یعنی صرف علامتی ہوتا ہے کیونکہ آئین کی رو سے صدر وزیراعظم کی ایڈوائس یا مشورے پر عمل کرنا کا پابند ہوتا ہے، صدر کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی، جماعت یا گروہ سے ہو، آئینی طور پر اس کی حیثیت وفاق کے نمائندے کی ہے جس کو تمام پارٹیوں، جماعتوں، گروہوں اور صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔

صدر منتخب ہونے کے بعد وہ اس طرح کھلم کھلا پارٹی بازی نہیں کرتے جس سے پارٹی ترجمانی کی جھلک نظر آئے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں فاروق احمد خان لغاری وہ واحد صدر گزرے ہیں جنہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا۔ تاہم افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ صدر عارف علوی کے آئینی رول میں ایسی کوئی جھلک ہی نہیں دکھ رہی بلکہ وہ تحریک انصاف کے ترجمان نظر آتے ہیں جو صدر کے آئینی عہدے کے شایان نشان نہیں۔

جب سے سابقہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے اور پی ڈی ایم کی سربراہی میں ایک نئی حکومت پاکستان کا نظام چلانے کی کوشش کر رہی ہے تو ایوان صدر میں بیٹھے عارف علوی نے وفاق کی علامت ہوتے ہوئے بھی پاکستان تحریک انصاف کا ترجمان بننا زیادہ پسند کیا ہے، اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینٹ) سے منظور شدہ ترمیمی بل یہ کہتے ہوئے واپس کر رہے ہیں کہ پارلیمان سے پاس شدہ ان بلوں کی نوعیت رجعت پسندانہ ہے۔

صدر مملکت کا مزید کہنا تھا کہ میں خود کو اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار رہتا ہوں، میرا ضمیر ان بلوں پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو تو سابق وزیراعظم عمران خان بھی اپنی غلطی مان چکے تاہم جن کی جانب سے یہ ریفرنس بھیجا گیا وہ ابھی تک خاموش ہیں۔

اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عمل کو بھی کسی طور غیرجانبدارانہ نہیں کہا جا سکتا جنہوں نے آخری وقت میں اپنے استعفی کا اعلان کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی اسپیکر کونسل کے رکن ایاز صادق کے سپرد کی۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا طرز عمل بھی تحریک انصاف کے کسی جذباتی نوعمر کارکن جیسا ہی تھا جسے عمران خان میں کوئی دیوتا نظر آتا ہے جو کہیں غلطی کر ہی نہیں سکتا۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں سے درخواست ہے کہ خدارا! سیاست کو اتنا سیاہ نہ کریں کہ وہ ”سیاہ سات” نظر آئے اور لوگوں کا سیاست اور سیاستدانوں پر سے اعتبار ہی اٹھ جائے اور اس تمام صورتحال کا فائدہ وہ اٹھا لیں جو اس ملک کے اصل کرتا دھرتا ہیں۔

سوات کا ضمنی الیکشن اگرچہ تحریک انصاف نے جیتا تاہم اگر ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کا سیاست اور سیاستدانوں پر سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ سوات میں ضمنی الیکشن کا ٹرن آؤٹ معتدل موسم کے باجود 17 سے 20 فیصد رہا۔

آغا شورش کشمیری نے کیا خوب کہا ہے:

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button